17 دسمبر 2024 - 09:41
شامی صدر بشارالاسد کے شام سے چلے جانے کی کہانی ان کے اپنے زبانی + تصاویر

شام کے صدر بشار الاسد نے گذشتہ ہفتے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ بیان جاری کیا ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں شام سے کسی "منصوبہ بند" روانگی کی تردید کی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، بشار الاسد نے، شامی صدارت کے ٹیلیگرام چینل پر پیر کو ماسکو سے اپنا بیان جاری کیا اور کہا کہ ماسکو نے ان کی شام سے انخلا کی درخواست کی تھی۔

ڈاکٹر بشار الاسد کے بیان کا خلاصہ اور تفصیل:

خلاصہ:

- میں دمشق کے سقوط کے بعد جنگ کی نگرانی کے لئے لاذقیہ میں  حمیمیم کے فوجی اڈے میں پہنچا تو معلوم ہؤا کہ ہماری افواج نے جنگی پوزیشنوں سے پسپائی اختیار کی ہے اور آخری مورچے بھی سقوط کر گئے ہیں۔

- میں نے ماسکو جانے کی پیشگی منصوبہ بندی ہرگز نہیں کی تھی لیکن دہشت گرد دمشق پہنچی تو لاذقیہ میں صدر کے حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کے لئے روسی فوجی اڈے چلا گیا لیکن فوج کی آخری پوزیشنیں گرنے کے بعد ماسکو نے مجھ سے دوخواست کی ماسکو چلا جاؤں۔

- میں ملک کبھی بھی نہیں جھوڑنا چاہتا تھا لیکن دہشت گردی دمشق پہنچی تو روسی دوستوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر، دہشت گردوں کے خلاف جنگی فعالیت جاری رکھنے کی غرض سے لاذقیہ میں روس کے حمیمیم فوجی اڈے چلا گیا تاکہ جنگ کی نگرانی کر سکوں۔ لیکن اس اڈے پر حملے ہوئے تو روس نے اڈے کی کمانڈ سے کہا کہ میں ماسکو چلا جاؤں۔ اس سے قبل سیاسی پناہ لینے کا مسئلہ زیر بحث نہیں تھا واحد آپشن یہ تھا کہ جنگ جاری رکھی جائے لیکن حالات ایسے ہوئے کہ اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔

- میں نے اپنا وطن منصوبہ بند طریقے سے نہیں چھوڑا، اور 8 دسبمر کی صبح تک دمشق میں رہا۔

- جو فلسطین اور لبنان میں مقاومت سے کبھی دستبردار نہیں ہؤا، یقینی امر ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی قوم سے دستبردار نہیں ہوگا۔

- دہشت گردوں کے ہاتھوں حکومت شام کے سقوط کے بعد، صدارتی پوزیشن خالی اور بے معنی ہو گئی۔

تفصیل:

صدر بشار اسد کا بیان ان حالات کے بارے میں جو ان کے شام سے نکلنے پر منتج ہوئے

ماسکو 16 دسمبر 2024ع‍

پورے شام میں دہشت گردی پھیل جانے کور دہشت 7 دسمبر 2024ع‍ کی شام کو دہشت گردوں کے دمشق پہنچنے کے بعد، صدر کے انجام اور تعیناتی کے مقام کے بارے میں کچھ سوالات اٹھے۔ یہ مسئلہ اس وقت پیش آیا جب ہر طرف سے غلط معلومات اور حقیقت سے عاری بیانیوں کا سیلاب امڈ آیا تھا جن کا مقصد یہ تھا کہ بین الاقوامی دہشت گردی کو شام میں آزادی کے تحریک کے طور پر متعارف کرایا جا سکے۔

قومی تاریخ کے اس حساس مرحلے میں، جب کہ حقیقت کو پہلی ترجیح ہونا چاہئے، ضروری ہے کہ ان تحریفات کا جائزہ لیا جائے۔ بدقسمتی سے اس وقت کے حکمفرما حالات ـ جیسے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر رابطے مکمل طور پر منقطع تھے، ہمارا بیان مؤخر ہؤا۔ گوکہ یہ رونما ہونے والے تمام واقعات کی تشریح کا متبادل نہیں ہوگا، جو کہ موقع میسر آنے پر شائع کی جائے گی۔

پہلی بات یہ ہے کہ میرا شام سے نکلنے کا فیصلہ نہ تو منصوبہ بند تھا، اور نہ ہی جنگ کے آخری لمحوں کیا گیا، جیسا کہ کچھ لوگوں نے دعوی کیا ہے۔ اس کے برعکس میں دمشق میں رہا اور اتوار 8 دسمبر 2024ع‍ کی صبح کے پہلے لمحوں تک اپنے فرائض سرانجام دیتا رہا۔ جس وقت دہشت گرد فورسز شام میں داخل ہوئیں، تو میں لاذقیہ منتقل ہؤا تاکہ روسی دوستوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر جنگی کاروائیوں کی نگرانی کروں۔

اس دن صبح کو حمیمیم ہوائی اڈے پہنچا تو معلوم ہؤا کہ ہماری افواج مکمل طور پر تمام پوزیشنوں سے پسپا ہوگئی ہیں اور فوج کے آخری پوزیشنیں بھی سقط کر گئی ہيں۔

جیسے ہی کہ علاقے میں میدانی صورت حال نازک ہوئی، تو روس کا ہوائی اڈہ بھی شدید ڈرون حملوں کا نشانہ بنا اور نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا، تو ماسکو نے درخواست کی کہ اڈے کی فوجی قیادت اتوار 8 دسمبر کی شام کو روس کی طرف انخلاء کا فوری انتظام کرے۔ یہ سب سقوط دمشق کے ایک دن بعد ـ جس کے نتیجے میں فوجی پوزیشنوں کی مکمل شکست و ریخت اور تمام سرکای اداروں کے مفلوج ہونے کے بعد ـ  ہؤا۔

ان تمام واقعات کے دوران، میں نے ہرگز ہرگز کنارہ کشی یا پناہ لینے کے بارے میں نہیں سوچا اور کسی فرد یا گروہ نے بھی مجھے ایسی کوئی تجویز نہیں دی۔ واحد ممکنہ اقدام دہشت گردی کی یلغار کا مقابلہ کرنا تھا۔

میں زور دے کر کہتا ہوں جس شخص نے جنگ کے پہلے روز سے ہی اپنے ذاتی مفادات کی خاط قوم کی نجات کا سودا کرنے اور بے شمار تجاویز اور وسوسوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے اجتناب کیا، وہ وہی فرد ہے جو اپنی فوج کے افسران اور جوانوں کے ساتھ اگلے مورچوں میں کھڑا رہا جبکہ خطرناک ترین اور شدیدترین جنگوں کے میدان میں دہشت گردوں سے اس کا فاصلہ چند ہی میٹر تھا۔

وہ وہی شخص ہے جس نے جنگ کے تاریک ترین برسوں میں ملک نہیں چھوڑا اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے عوام کے دوش بدوش کھڑا رہا اور بمباریوں اور دہشت گردوں کی مسلسل دھمکیوں کو 14 برسوں تک برداشت کیا۔

علاوہ ازیں جس شخص نے کبھی بھی فلسطین اور لبنان میں مقاومت کا ساتھ نہیں چھوڑا اور جس نے اپنے ان اتحادیوں سے خیانت نہیں کی جو اس کے ساتھ کھڑے تھے، وہ کس طرح اور اپنی فوج اور اپنی قوم سے غداری کر سکتا ہے۔

میں کبھی بھی ذاتی مفادات کے درپے نہیں تھا اور میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک قومی منصوبے کا پاسبان سمجھا ہے جس کو شامی عوام پر ایمان اور ان کے ارادے کی پشت پناہی حاصل تھی۔ میں نے ریاست اور اس کے اداروں اور عوامی انتخاب کے تحفظ کے اپنے عہد کی پابندی پر اپنے ایمان اور تعہد کو آخری لمحے تک محفوظ رکھا ہے۔

جس وقت ملک دہشت گردی کے چنگل میں چلا جاتا ہے اور بامعنی شراکت داری کی قوت جواب دے بیٹھتی ہے، کوئی بھی پوزیشن اور منصب اور عہدے بے معنی ہو جاتا ہے۔  یہ مسئلہ البتہ شام اور اس کے عوام کے ساتھ میرے گہرے تعلق کے احساس کو بھی بھی کم نہیں کرتا۔ یہ وہ رشتہ ہے جو کسی بھی صورت حال میں متزلزل نہیں ہوتا۔

تعلق کا یہ احساس اس امید سے مالامال ہے کہ شام ایک بار پھر آزاد اور خودمختار ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔

110