رہبر انقلاب اسلامی نے بسیجیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: عالمی عدالت نے گرفتاری کا حکم سنایا جبکہ نیتن یاہو اور اس ریاست کے جرائم پیشہ سرغنوں کو پھانسی کا حکم سنانا چاہئے۔

25 نومبر 2024 - 10:42
ایرانی بسیجی کو یقین ہے کہ وہ صہیونی ریاست کو تباہ کرکے رکھ دے گا / دشمن کے ارادے سے مغلوب مت ہونا / نیتن یاہو کی گرفتاری کافی نہیں ہے، اس کو پھانسی پر چڑھنا چاہئے، امام خامنہ ای

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ملک بھر سے ہزاروں بسیجیوں نے آج [سوموار 25 نومبر 2024 کی] صبح  ہفتۂ بسیج کے موقع پر حسینیۂ امام خمینی(رح) میں حاضر ہوکر رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) سے ملاقات کی۔  رہبر انقلاب اسلامی نے مختلف طبقات کی بسیج فورس کے ہزاروں اراکین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

- رہبر انقلاب اسلامی نے بسیجیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: عالمی عدالت نے گرفتاری کا حکم سنایا جبکہ نیتن یاہو اور اس ریاست کے جرائم پیشہ سرغنوں کو پھانسی کا حکم سنانا چاہئے۔

- یہ تقریب آئی آر آئی بی کے چینل-1 سے براہ راست نشر ہو رہی ہے۔

- بسیج کے بارے میں چند جملے عرض کرتا چلوں: بسیج مستضعفین اس ملک میں ایک عدیم المثال حقیقت ہے، اس قسم کی قوت کی تشکیل کی ـ دنیا بھر کے کسی بھی دوسرے ملک میں ـ اس صورت میں، کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک عدیم المثال قوت تھی، میں مختلف جہتوں سے اس کی وضاحت کروں گا اور عرض کرتا ہوں کہ اس قوت کی تشکیل کسی کی تقلید میں نہیں بنی بلکہ اس نے ہماری اپنی قومی ثقافت اور قومی تاریخ سے جنم لیا۔ یہ ہماری پہلی بات ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ قوت حقیقی ہے لہذا زندہ جاوید ہے۔ یہ قوت ختم ہونے والی نہیں ہے کیونکہ اس کی جڑیں مضبوط ہیں، اور اس کا تعلق ہماری اپنی قوم، اور اپنی تاریخ اور ایرانی قومی تشخص سے ہے۔ یہ ایک ثقافتی نیٹ ورکنگ (اور مربوط ثقافتی سلسلے کی تعمیر) ہے۔

بسیج ایک ثقافتی، سماجی اور فوجی نیٹ ورک ہے

- بسیج ایک ثقافتی اور سماجی ـ اور البتہ فوجی ـ نیٹ ورکنگ ہے، جو کچھ بسیج کا نام سن کر آج ذہن میں ابھرتا ہے وہ بسیج کا فوجی پہلو ہے، حالانکہ اس کا فوجی پہلو، اپنی غیر معمولی اہمیت کے باوجود، اس کے ثقافتی اور سماجی پہلوؤں سے زیادہ اہم نہیں ہے۔

امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے اس مربوط سلسلے کی بنیاد رکھی اور اس نیٹ ورکنگ کو سرانجام دیا؛ کب؟ ایک عظیم خطرے کے بیچوں بیچ، یہ ہیں ہمارے امام بزرگوار کی خصوصیات۔

آپ میں سے اکثر نے امام کا دور نہیں دیکھا ہے، ہمارے امام بزرگوار کی ایک خصوصیت یہی تھی کہ آپ خطروں کے اندر سے ایک موقع خلق کر دیتے تھے، ایسا ہؤا کہ 4 نومبر 1979ع‍ کو جب امریکی جاسوسی کے اڈے کی تسخیر عمل میں آئی تو اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت "امریکہ" نے دانت اور پنجے دکھانے اور پابندیاں لگانے اور دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا اور امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) نے 22 یا 23 دن بعد مورخہ 26 نومبر کو بسیج کی تشکیل کا حکم نامہ جاری کیا۔

بسیج ایک فکری اور ثقافتی نیٹ ورکنگ

- یعنی یہ وقت تھا کہ ملک ـ وہ بھی ایسا ملک جس نے تازہ بتازہ انقلاب بپا کیا تھا اور اپنے دفاع کے لئے اس کے پاس وسائل تقریبا نہ ہونے کے برابر تھے، اور اس کو اتنی عظیو دھمکی اور عظیم خطرے کا سامنا تھا اور امام نے ایسے ہی حالات میں ملک کی سماجی، ثقافتی اور عسکری زمین میں ایک شجرہ طیبہ اور ایک نونہال پودا لگایا اور وہ شجرہ طیبہ "بسیج" ہے۔

امام نے ایک دھمکی اور ایک خطرے سے ایک موقع خلق کیا، البتہ جیسا کہ میں نے کہا عسکری پہلو، بسیج کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک ہے۔

جو کچھ میں اب عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلے درجے میں بسیج ایک مکتب ہے، ایک فکر اور ایک سوچ ہے، درحقیقت ایک فکری اور ثقافتی نیٹ ورک ہے۔

اگر میں اس منطق اور اس اساس کو دو الفاظ میں بیان کرنا چاہوں جس کے اوپر کہ بسیج کی بنیاد رکھی گئی ہے، تو کہنا پڑے گا کہ وہ دو الفاظ "ایمان اور خوداعتمادی" سے عبارت ہیں؛ یا اس کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ یہ دو نکتے "خدا پر اعتماد اور اپنے آپ پر اعتماد" بسیج کے دو ستون ہیں۔ اور یہ ممتاز خصوصیات عالمی استکبار کے نقشوں اور سازشوں پر قطعی غلبے کا سبب بنے گی۔

شجاعت، تخلیقی صلاحیت، عمل اور اقدام میں تیز رفتاری، وسیع بصارت و بصیرت، دشمن شناسی اور مختلف النوع حرکتوں کی نسبت حساسیت، بسیج کے ان دو مستحکم ستونوں سے جنم لیتی ہے؛ خدا پر اعتماد کا کے معنی اور ثمرات پروردگار کے سامنے تسلیم، اللہ پر توکل کرنے، اس کا سہارا لینے اور اسی پر امید رکھنے اور اس کے سچے وعدوں پر یقین رکھنے سے عبارت ہیں۔ 

 

- بسیجی فرد اور بسیج کی تنظیم میں اللہ پر اعتماد  و اعتقاد اس حقیقت پر ایمان [لانے] کا باعث ہے کہ اس کائنات کے تمام لا متناہی اجزاء اللہہ کا لشکر ہیں اور اگر ہم اللہ کے بندے ہوں تو یہ لشکر پروردگار کی صوابدید سے اور اللہ کی سنتوں کی بنیاد پر، ہماری مددد کو آئے گا؛ جیسا کہ مختلف ادوار اور زمانوں میں بھی ہم اس حقیقت کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔

خوداعتمادی اور اپنے آپ پر اعتماد کے نتیجے میں بھی انسان کی وجودی صلاحیتیں اور استعدادات منکشف ہو جاتے ہیں، جن میں قوت فیصلہ اور ارادے اور عمل کی قوت، ان صلاحیتوں اور قوتوں کی قدردانی اور ان قوتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی توانائی شامل ہے؛ ان توانائیوں کا انکشاف اور انہیں بروئے کار لانا، استکباری عزائم اور منصوبوں کے مخالف نقطے پر ہے۔

۔۔۔۔۔

- بسیج نے ایران کی قومی ثقافت اور تشخص و تاریخ سے جنم لیا ہے۔

- مستقبل کا محور مقاومت (محاذ مزاحمت) آج کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور اور وسیع تر ہوگا۔

غزہ اور لبنان میں صہیونی جرائم جرائم جاری رہنے کے باوجود، صہیونی ریاست میدان میں فتح نہیں پا سکے گی۔

- صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی گرفتاری کا حکم کافی نہیں ہے اور اس کو غاصب ریاست کے دوسرے جرائم پیشہ حکام کو پھانسی پر چڑھانا چاہئے۔

- اقوام کی صلاحیتوں کا انکار کرنا اور ان کو چھوٹا اور حقیر کرنا، تسلط پسند قوتوں کی مستقبل پالیسی ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق، فرعون اپنی قوم کی تحقیر و تذلیل کرتا تھا تاکہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ البتہ امریکہ اور یورپ کے آج کے سلاطین سے کہیں زیادہ شریف تھا، کیونکہ یہ دوسری اقوام کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں ان پر مسلط ہو جاتے ہیں اور ان کے مفادات اور ذرائع کو لوٹ لیتے ہیں۔

- ملکوں میں استکباریوں کے اندرونی عوام تسلط پسندوں کی طرف کے بیرونی روحانی اور نفسیاتی دباؤ کو مکمل کرنے کے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ دشمن کے ان ہی اندرونی عوامل، اپنے بیرونی آقاؤں کی زبان بولتے ہیں اور قوم کی تاریخ، تشخص و شناخت اور صلاحیتوں اور قوتوں کا انکار کر دیتے ہیں تاکہ تسلط پسندوں کے تسلط کے لئے راہ ہموار کر دیں؛ جیسا کہ ایران میں تیل کو قومیانے کی تحریک میں ایسا ہی ہؤا۔

- بسیج فورس قومی تحقیر و تذلیل کے مخالف نقطے پر کھڑی ہے، جبکہ قاجار اور پہلوی ادوار میں ایران کی تحقیر کی جاتی رہی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد، ایرانی وقد کو پیرس کانفرنس میں داخلے کی اجازت تک نہیں دی گئی، مگر بہرحال انقلاب اسلامی نے کایا پلٹ دی اور قومی عزت کو بحال کر دیا۔

- بسیجی فکر حصار شکن ہے، اور "بسیجی خود اعتمادی" قوم کو تحقیر، انفعالیت اور ناامیدی سے دوچار کرنے کے لئے تسلط پسند نظام کے بے انتہا خطرناک نرم ہتھیاروں کو ناکارہ بنا دیتی ہے اور یہ ہمت، حوصلہ اور اس سے جنم لینے والی صلاحیتیں، ـ بلا شبہہ ملک میں بھی اور محور مقاومت کے رکن ممالک و اقوام کے اندر، ـ تمام تر امریکی، مغربی اور صہیونی ریاست کی تمام تر سازشوں پر غلبہ پائیں گی۔

- امام بزرگوار (رضوان اللہ علیہ) نے سنہ 1962ع‍ ہی سے بسیجی فکر اور عوام کی خوداعتمادی اور خدا پر یقین و اعتماد پیدا کرنے کے لئے ماحول بناتے رہے تھے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بھی امام نے بسیج کو بڑے بڑے دھچکوں کے مقابلے میں ایک زبردست بند بنا دیا اور بسیج نے تمام عسکری، سماجی اور سائنسی شعبوں نیز تعمیر و ترقی اور ملک کو محفوظ بنانے کے شعبوں اور سیاسی اور بین الاقوامی میدانوں میں کردار ادا کیا ہے۔

- یقینا سماجی اور سائنسی طاقت ملک کی سیاسی طاقت کا موجب بنتی ہے اور اگر ایک قوم ااتحاد، عزم راسخ، استقامت اور ثابت قدمی سے، فعال قوتوں کو میدان میں لا کر، اپنی سائنسی اور سماجی صلاحیتوں کو نمایاں کرے، وہ سیاسی طاقت کو بھی حاصل کر لیتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے موقف کو مضبوطی ساتھ آگے بڑھا سکتی ہے۔ 

- امریکیوں نے گذشتہ عشرے کے آخر میں ایران کے خلاف خباثت آلود سازش رچائی تو ہمارے نوجوانوں نے یورینیم کی افزودگی کو 20 فیصد تک پہنچایا جو بسیجی حوصلے کی ایک مثال ہے۔ جس وقت ملک کو ادویات کی تیاری کے لئے یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کی ضرورت تھی، امریکہ نے اس وقت کے دو اہم ممالک کے سربراہان کی ثالثی میں 20 فیصد افزودہ یورینیم ایران کو فروخت کرنے کا وعدہ دیا تھا لیکن مذاکرات کے بیچ دھوکہ دے بیٹھا جس کے بعد ہمارے بسیجی سائنسدانوں نے ـ منجملہ ڈاکٹر شہید مجید شہریاری ـ نے 20 فیصد افزوندگی کو مقامی طور پر ممکن بنایا جبکہ امریکہ کو یقین نہیں آ رہا تھا اور ایران کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی سازش ناکام ہو گئی۔

- باعث فخر و اعزاز بننے والے اور تعطل توڑنے والے بہت سے کارنامے، بسیج کی تنظیم سے باہر، بسیجی حوصلے اور ہمت پر استوار ہیں، بسیج کے اس مکتب اور اس ثقافت کا تحفظ بہت اہمیت رکھتا ہے اور بسیجی تمام شعبوں میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں، اور انہیں ہر کام کے لئے اسی حوصلے، استعداد اور آمادگی اور مسائل کے مقابلے میں حساسیت اور ہوشیاری کو محفوظ رکھنا چاہئے اور ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہئے۔

بسیج اور دنیا کے نوجوانوں کے مسائل

- دنیا کے مختلف ممالک کے نوجوانوں کو بیہودگی، مُہمَلِیَّت، رکاوٹوں کے سامنے بے بسی، ذہنی تعطل اور اس صورت حال کے نتیجے میں خودکشی، جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ جبکہ بسیجی فکر کے خودشناسی اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کی بنا پر تعطل شکن ہے اور بسیجی اپنے عزم، حوصلے اور ہمت کے بدولت، تسلط پسند قوتوں کے شورشرابوں سے مرعوب نہیں ہوتا اور مختلف مسائل کے سلسلے میں امریکہ اور صہیونی ریاست کے تشہیری ہنگامہ ارائیوں پر طنزیہ انداز سے مسکراتا ہے۔

مقصدیت / صہیونی ریاست کی فنا پر یقین

- بسیجی فکر کی ایک خصوصیت "مقصدیت" ہے۔ بسیجی اپنے ہدف ـ یعنی اسلامی معاشرے، اسلامی تہذیب اور قیام عدل ـ پر ایمان کے ساتھ، موت کے خطرے کی پروا کئے بغیر، شہادت کی آرزو لے کر آگے بڑھتا ہے، جیسا کہ دفاع مقدس کے دوران بھی اور دفاعِ حرم کے زمانے میں ہم نے جوانوں کے شوق جہاد اور شوق شہادت کے نمونے دیکھ لئے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پر ایک ایرانی بسیجی کو یقین ہے کہ وہ بالآخر، ایک دن، صہیونی ریاست کو نیست و نابود کرے گا۔

بسیج کی روزافزوں تقویت کی ضرورت

- بسیج کی روزافزوں تقویت اور اس کی سرگرمیوں کو معیاری بنانا اور گہرائی دینا ایک ضرورت ہے۔ بسیجم کا پرچم حق و حقیقت اور ملت کے حقوق کے دفاع و تحفظ کا پرچم ہے، اس کو ہمیشہ بلند رہنا چاہئے اور اس مقصد کا لازمہ یہ ہے کہ بسیجی تعلیمات کو گہرائی دی جائے، اس کی سرگرمیوں کو معیاری بنایا جائے، اس کی کیفیت میں اضافہ کیا جاتا رہے، مطالعہ اور مباحثہ کرکے اور درسی و تحقیقی حلقے اور محفلیں تشکیل دے کر، مسائل کے بارے میں سطحی نگاہوں سے پرہیز کیا جائے۔

- بسیج انتظامی مشینری کے فعال بازو کے طور پر ہمیشہ تیار ہے، اور بسیج کی تقویت کا ایک پہلو یہ ہے کہ بسیج اپنی ان سرگرمیوں کو جاری رکھے۔ بسیج نے ہمیشہ حکومتوں کی مدد کی ہے اور ان کے فعال بازو کے طور پر سرگرم رہی ہے۔ اگرچہ بعض حکومتوں نے قدرشناسی اور حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔

خطے کے ممالک کے لئے امریکی منصوبہ اور بسیج

- امریکہ نے جب خطے کے ممالک کے لئے منصوبہ بنایا تو بسیج اس کے مد مقابل آکھڑی ہوئی، اور یہ سیاسی میدان میں بسیج کی تقویت کا ایک سبب ٹہرا۔ خطے میں اپنے مفادات کے حصول کی غرض سے متعلقہ ممالک کی مجوزہ امریکی ہیئت یہ ہے کہ ان ممالک میں "استبدادیت و آمریت" یا "افراتفری اور انارکی" کا دور دورہ ہے۔

- بسیج کے لئے اس جڑواں مسئلے کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ ان میں سے ہر ایک صورت اگر ملک میں پیش آئے تو جان لینا چاہئے کہ اس میں دشمن کا ہاتھ ہے اور بسیج کے اس کے مد مقابل اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔

فلسطین اور لبنان کا مسئلہ

- احمق دشمنوں کا وہم تھا کہ گھروں اور ہسپتالوں اور عوامی اجتماعات کو نشانہ بنانا ان کی کامیابی کی علامت ہے؛ جبکہ دنیا میں کوئی بھی اس کو کامیابی نہیں سمجھتا۔

- دشمن غزہ اور لبنان میں تمام تر جنگی جرائم کے باوجود کامیاب نہیں ہؤا اور نہیں ہوگا۔ جو حکم نیتن یاہو کی گرفتاری کے لئے [بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے] جاری ہؤا ہے، وہ کافی نہیں ہے اور اس کے اور صہیونی ریاست کے تمام سرغنوں کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم جاری کیا جانا چاہئے۔

- صہیونی ریاست غزہ اور لبنان میں جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے لیکن ان جرائم کا نتیجہ جرائم پیشہ صہیونی حکمرانوں کی توقعات کے برعکس، مقاومت کی تقویت اور مزاحمت میں شدت آنے کی صورت میں برآمد ہؤا۔ کیونکہ غیورت فلسطینی اور لبنانی نوجوان جب دیکھتا ہے کہ خواہ میدان جنگ میں ہو خواہ نہ ہو، اسے بمباری اور موت کا خطرہ لاحق ہی ہے، تو اس کے پاس لڑنے اور مزاحمت کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا؛ چنانچہ یہ احمق مجرمین در حقیقت اپنے ہاتھ سے ہی محاذ مقاومت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔

محور مقاومت کا فروغ یقینی ہے

محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کا فروغ ضروری، حتمی اور ناقابِل تخَلُّف (Inviolable) ہے۔ محور مقاومت آج جس قدر پھیلا ہؤا ہے، کل یہ کئی گنا زیادہ فروغ پائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110