24 دسمبر 2024 - 20:53
دہشت گرد ٹولہ ہیئتِ تحریر الشام؛ مغربی ایشیا میں امریکی اثاثہ! + ویڈیوز + تصاویر

القاعدہ کے آخری چشم و چراغ ہیئتِ تحریر الشام کے ساتھ امریکہ کا دوہرا رویہ مبصرین اور تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بنا ہؤا ہے۔ امریکہ نے اس ٹولے کا نام ایسے حال میں دہشت گرد ٹولوں کی فہرست میں درج کیا تھا، کہ امریکہ کے سابق اہلکار تحریر الشام کو "امریکہ کا اثاثہ" سمجھتے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

"شام کی ہیئتِ تحریر الشام امریکہ کی موجودہ تزویراتی حکمت عملی میں، امریکہ کا اثاثہ ہے"۔ یہ وہ جملہ ہے جو "داعش کے خلاف [مبینہ] جنگ" نامی مغربی اتحاد کے لئے امریکہ کے سابق خصوصی ایلچی جیمز جیفری نے امریکی ذرائع کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے۔

جیمز جیفری نے سی بی ایس کے ساتھ انٹرویو میں زور دے کر کہا تھا کہ "وہ (ہیئتِ تحریر الشام) شام کے صوبہ اِدلِب سے متعلق آپشنز میں دوسروں سے "کم بری" ہے اور یہ صوبہ شام کا ایک اہم علاقہ ہے؛ وہ شام جو مشرق وسطیٰ کے اہم ترین علاقوں میں سے ایک ہے"۔

امریکہ کے اس سابق ایلچی نے ایسے حال میں ہیئتِ تحریر الشام کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر مبنی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ ان کا ملک، ظاہری طور پر ابو محمد الجولانی کی سرکردگی میں مختلف ٹولوں کو متعدد بار دہشت گرد ٹولوں کی فہرست میں قرار دیتا رہا ہے۔

واشنگٹن نے اپنا قدم اس سے بھی آگے بڑھایا تھا اور الجولانی کی گرفتاری کے لئے ایک کروڑ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔ اور یہ وہ اعلان تھا جو الجولانی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد منسوخ کیا گیا!!

جیفری نے شام میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے بارے میں کہا تھا کہ "میں اور میری ٹیم، شام میں امریکی فوج کی نفری کی صحیح تعداد اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے چھپاتے رہے تھے"۔

ہم کبھی بھی امریکہ یا یورپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے، الجولانی

ہیئتِ تحریر الشام (یعنی جبہۃ النصرہ) جو اس سے قبل القاعدہ سے منسلک تھی، ماضی میں کئی مرتبہ امریکہ سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیتی رہی ہے۔

اس ٹولے کے سرغنے ابو محمد الجولانی نے قبل ازیں سی بی ایس کے ساتھ اپنے انٹرویو میں زور دے کر کہا تھا کہ "گوکہ ہیئتِ تحریر الشام خطے میں بعض مغربی پالیسیوں کے خلاف ہے لیکن امریکہ اور یورپ کے خلاف ہرگز کوئی قدم نہيں اٹھاتی؛ ہمارا اصل کردار شامی حکومت کا مقابلہ کرنا ہے، اور ہمیں دہشت گردی کی فہرست میں قرار دینے والے ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں"۔

یہ ٹولہ امریکی مفادات کے تحفظ ـ اور دہشت گرد ٹولوں کی فہرست سے نکلنے ـ کی خاطر حتیٰ کہ شام میں حاضر بعض دیگر دہشت گرد ٹولوں سے لڑتا بھی رہا ہے۔

تحریر الشام نے اِدلِب اور اس کے نواح میں اپنے ساتھی دہشت گرد ٹولے "حُرّاسُ الدِّین" کے ارکان کے گھروں پر حملے کئے اور ان میں چھ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ حُرّاسُ الدِّین بھی تحریر الشام (سابقہ جبہۃ النصرہ) کی مانند، القاعدہ سے منسلک گروہ ہے۔

شامی اخبار "الوطن" نے اس مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا: جبہۃ النصرہ کے ہاتھوں حُرّاسُ الدِّین ٹولے کے ارکان ـ بالخصوص اس گروہ کے غیر ملکی ارکان ـ کی حالیہ گرفتاری الجولانی کی طرف سے امریکی عزائم کی تکمیل کی خاطر عمل میں آئی ہے تاکہ وہ [امریکیوں کو] جتا سکے کہ "وہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے"۔

"اسد کو جانا پڑے گا"

یہ جملہ حالیہ برسوں میں امریکی اور بعض اوقات یورپی حکام کے اکثر بیانات میں سے سب سے زیادہ دہرایا جاتا رہا ہے کہ "اسد کو جانا پڑے گا"۔

ریاست ہائے متحدہ کے اکثر اعلیٰ اہلکاروں نے مکرر در مکرر اسد حکومت گرانے پر زور دیا تھا۔ بارک اوباما، ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ اہم ترین امریکی اہلکار ہیں جنہوں نے بشار شام کے سابق صدر بشار اسد کی حکومت کی برطرفی پر زور دیا تھا۔

بشار اسد حکومت کی کایا پلٹ پر امریکی حکام کا رد عمل اچھی طرح نمایاں کرتا ہے کہ امریکی حکومت نے سابق شامی حکومت گرانے کے لئے کتنے وسیع پیمانے پر اقدامات اٹھائے ہیں۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سینئر رکن جم رش (Jim  Risch) نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ "ہم نے اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے برسوں کام کیا اور کام کو مکمل کر دیا"۔

یہ بھی دیکھئے: شام میں اسد حکومت کا تختہ ہم نے الٹ دیا، صہیونی وزیر جنگ

بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں نے ـ تحریر الشام کو کسی بھی قسم کی مدد کی فراہمی کا انکار کرنے کے باوجود ـ کہا ہے کہ صدر بائیڈن کی پالیسیاں نے شام کے موجودہ واقعات کے لئے ماحول سازی کی ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر (Matthew Miller) نے اسد حکومت کی کایا پلٹ کے ایک دن بعد کہا تھا کہ "امریکی پالیسیاں، آج کی صورت حال کا سبب بنی ہیں"۔ اس امریکی اہلکار نے مزید کہا ہے کہ ان امریکی پالیسیوں کا دائرہ اوباما انتظامیہ کے آخری دنوں میں وسیع تر کیا گیا تھا اور یہ پالیسیاں آج تک جاری رہیں ہیں اور ان کی بنیاد پر اقدامات عمل میں لائے گئے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی (John Kirby) دوسرے امریکی اہلکار ہیں جنہوں نے شام کے واقعات میں امریکہ کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اور ان واقعات کو بائیڈن پالیسوں کا ثمرہ قرار دیا اور اسد حکومت کے سقوط کے دو روز بعد، مورخہ 10 دسمبر 2024ع‍ کو، اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ "ہمیں یقین ہے کہ شام کی موجودہ صورت حال، صدر بائیڈن کی کامیاب اور فیصلہ کن پالیسیوں کا عملی ثبوت ہے"۔

امریکہ کے قومی پبلک ریڈیو (National Public Radio [NPR]) کی ویب گاہ نے اپنے ایک مضمون میں، ہیئت تحریر الشام کے تئیں امریکی معاشی امداد کے سلسلے میں، لکھا ہے کہ: "مختلف ذرائع سے معلوم ہؤا ہے کہ ہیئت تحریر الشام ترکیہ، یوکرین، خلیج فارس کی عرب ریاستیں، اور حتی کہ امریکی سی آئی اے اور اسرائیل سے امداد وصول کرتی رہی ہے جس میں مالی امداد، اسلحہ، عسکری تربیت وغیرہ شامل ہیں۔

الجولانی کے ساتھ تعلقات کا فروغ اور وارنٹ گرفتاری کی منسوخی

واشنگٹن نے شام پر زیادہ سے زیادہ تسلط جمانے کے سلسلے میں  اپنے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے، دمشق میں الجولانی کے برسر اقتدار آنے کے صرف دو ہفتے بعد، ہیئت تحریر الشام کے سرغنے سے ملاقات اور بات چیت کے لئے ایک وفد شام روانہ کیا۔

اس ملک نے "ابو محمد الجولانی" کی گرفتاری کے لئے اعلان کردہ ایک ڈالر کا انعام بھی منسوخ کرکے "احمد الشرع" کے ساتھ تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔

علاوہ ازیں، دمشق پر قبضے کے لمحے سے لے کر اب تک، امریکی حکام نے متعدد بار ہیئت تحریر الشام" کو دہشت گرد ٹولوں کی فہرست سے خارج کرنے کا امکان ظاہر کیا ہے اور لگتا ہے کہ امریکہ کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کے ہوتے ہوئے یہ کام بھی انجام پائے گا۔

نکتہ: 

یعنی گویا امریکہ کے اعلان کے ساتھ ہی دہشت گرد تنظیم، ـ جس نے اپنی مختصر تاریخ مین صرف مسلمانوں کو قتل کیا ہے، خواتین کو سربازار گولیاں مار کر شہید کرتی رہی ہے اور شامی فوجیوں کو کلیجے چبا دیئے اور مسلمانوں کے ہاں مسلمہ دہشت گرد ٹولہ ہے اورجس نے امریکیوں کی طرف ایک گولی بھی فائر نہیں کی ہے ـ مزید دہشت گرد نہیں رہے گی!! جبکہ سب جانتے ہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں امریکہ کی پراکسی ہیں اور امریکی مفادات کے لئے لڑتی ہیں چاہے وہ ہیئت تحریر الشام ہو، خواہ ٹی ٹی پی یا پاکستانی آئی ایس پی آر کے بقول خوارج ہو۔ گوکہ ان ہی خوارج کو پاکستان دشمنی کے باوجود، پاکستانی ضلع کرم میں شیعوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی دی گئی ہے اور وہ ان دنوں قومی شاہراہ کی بندش کے فوجی اور سرکاری حکم نامے کو نافذ کر رہے ہیں جو کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی اعلان کردہ پالیسی سے متصادم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

اوباما کے خطاب کی ویڈیوبہت اہم ہے: