"موعودِ عصرانسٹی ٹیوٹ" کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ جس طرح کہ شیعیان اہل بیتؑ کو مؤمنانہ انتظار جاری رکھنا چاہئے اور مُصلِحِ کُلؑ [کے ظہور] کی طرف گامزن رہنا چاہئے، اسی طرح انہیں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے بھی کوشاں رہنا چاہئے ورنہ عظيم شیعہ ذخیرے اور اثاثے کو نقصان پہنچے گا۔

29 دسمبر 2024 - 22:39
شیعیان اہل بیتؑ مؤمنانہ انتظار کے ذریعے مُصلِحِ کُلؑ کی طرف گامزن ہوں

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

"موعود عصرانسٹی ٹیوٹ" کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اسماعیل شفیعی سروستانی نےارنا کے نامہ نگار سے بات چیت کرتے ہوئے ہوئے کہا:

ظہور ایک تقدیری امر ہے، یعنی جب اللہ تقدیر فرمائے گا، ظہور وقوع پذیر ہوگا اور ظہور کے عظیم و شریف واقعے کی نوعیت اللہ کی تقدیر ہی کی تقویت ہے۔

یعنی یہ کہ اس واقعے کی نوعیت کسی صورت بھی صہیونی عیسائیوں کے فیصلوں سے تعلق نہیں رکھتی جو ایک انجیلی سرزمین اور آرمیگیڈون [ارمگدون یا ہرمجدون] (Armageddon) کے درپے ہیں اور یہودی صہیونیوں اور قَبالہ [یا قَبَلہ، قابالہ اورقابالا اور کابالا (انگریزی: Kabbalah؛ عبرانی: קַבָּלָה)] دھاروں کی طرح بھی نہیں ہے کیونکہ ان دھاروں کی منصوبہ بندیاں شیطانی ہیں، حالانکہ ظہور کا شریف واقعہ تقدیر الہی کی نوعیت کا واقعہ ہے۔

ڈاکٹر شفیعی سروستانی، ـ جو کتاب "پیشگوئی ہا و آخر الزمان" اور کتاب "مثلثِ مقدس" کے مصنف بھی ہیں ـ نے کہا: اس زمانے میں مسلمانوں کا فریضہ یہ ہے کہ مؤمنانہ انداز سے زندگی گذاریں، مؤمنانہ انداز سے انتظار کریں، اور آگہی اور عمل کے ساتھ  مُصلِحِ کُلؑ اور آپ کے ظہور کی طرف گامزن رہیں۔

دوسرے لفظوں میں؛  مُصلِحِ کُلؑ کی طرف گامزن ہونا، صرف اس وقت ممکن ہے کہ ہم امام مُنتَظَر (علیہ السلام) کے مقام و منزلت کی معرفت [اور پہچان] رکھتے ہوں۔ انتظار اس انداز سے ہوتو یہ اللہ کی تقدیر کی تعجیل کا سبب بنے گا۔ اگر  مُصلِحِ کُلؑ کی طرف گامزن ہیں تو ہمیں صالح اور نیک ہونا چاہئے لیکن زبانی کلامی یا نعروں کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر۔ اگر ہم ظہور کی ماحول سازی کی طرف گامزن ہونا چاہیں تو سب سے پہلے آگہی اور عمل کے ساتھ  مُصلِحِ کُلؑ کی طرف گامزن ہونا چاہئے۔

انھوں نے کہا: یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی معاشرے میں فساد اور برائی پھیلا دے اور پھر کہتا رہے کہ "یا صاحب الزمانؑ ادرکنی"، کیونکہ یہ شیطانی منصوبہ بندی کا تسلسل ہے حالانکہ ظہور کا عظیم و شریف واقعہ اللہ کی تقدیر سے وقوع پذیر ہوتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ اگر لوگ آمادہ ہوں اور اپنے امام سے انسیت اور ارتباط بڑھا دیں تو اللہ کی تقدیر جلد از جلد رونما ہو جائے۔

انھوں نے کہا کہ حکمرانوں اور معاشرتی اور سیاسی و اقتصادی معاملات کے ذمہ دار لوگ [بشمول حکمران اور علمائے دین اور دانشور] عوام کے باہم جزوی اور کلی روابط اور لین دین کو طہارت، پاکیزگی، تزکیہ اور عدالت کی سمت میں آگے بڑھائیں اور لوگوں کے امور کی اصلاح کریں۔ ورنہ عظیم اسلامی اور شیعی اثاثوں کو نقصان پہنچے گا اور یہودیت اپنا مقصد حاصل کر سکے گی کیونکہ یہودیت یہی چاہتی ہے یعنی یہ کہ مسلمانوں اور بطور خاص شیعیان اہل بیتؑ ـ جو اس وقت یہود و نصاری کے نشانے پر ہیں ۔ کی جان و مال اور عزت و ناموس کی حفاظت کی جائے تاکہ ظہور موعود کے لئے راستہ ہموار ہو جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110