اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
غزہ اور پاراچنار میں اشتراکات بہت ہیں لیکن غزہ میں یہودی براہ راست ظلم کا ارتکاب کر رہے ہيں اور پاراچنار میں حکومت ـ اہل سنت کی آڑ میں ـ ظلم کر رہی یعنی یہودی براہ راست ملوث نہیں ہیں۔ جو شیعوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انہیں درندگی کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہ بھی ایک خفیہ ایجنڈے کے تحت بڑی طاقتوں اور عالمی صہیونیت کی بساط پر کھیل رہے ہيں۔ وہ بظاہر فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر لڑ رہے ہیں، ورنہ تو یقینا ان کا اپنا کوئی 'جیوپولیٹک' یا 'جیواسٹراٹیجک' منصوبہ نہیں ہے، اصل منصوبہ سنہ 1987ع سے شروع ہؤا ہے جس کے لئے کم فہم اور کم سمجھدار اور کم سوچنے والے عناصر کو استعمال کیا جا رہا ہے اہل تشیع کے خلاف؛ ورنہ اہل تشیع تو غزہ میں اہل سنت کے لئے جان کی قربانیاں دے رہے ہیں، اپنے بڑے بڑے راہنماؤں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور دنیا عرب اور دنیائے اہل سنت کی خاموشی کے بیچوں بیچ اہل تشیع ہی ہیں جو لبنان سے لے کر یمن تک، غزہ اور فلسطین کے سنیوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، جبکہ پاراچنار کی یہ استعماری جنگ ـ جس میں مقتدر قوتوں اور عالمی استعمار کے تکفیری گماشتوں نے شیعوں کو بھی اور سنیوں کو بھی، پھنسا رکھا ہے۔ گوکہ یہ جنگ، پاکستانی ریاست کے خلاف بھی جنگ ہے اور یہ جنگ پاکستان کا ایک تزویراتی سرحدی علاقہ اسلام کے بڑے دشمنوں کے سپرد کرنے کے لئے ہے، لیکن چونکہ پس پردہ قوت گرین کارڈ بھی دے سکتی ہے اور ویزا بھی اور حکمرانوں کے بچوں کو اسکالر شپ بھی، اور انہیں اقتدار میں بھی رکھ سکتی ہے، چنانچہ مقتدر قوتیں اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر مسلسل آمادہ رہتے ہیں۔
غزہ تباہ ہو چکا ہے یہ درست ہے، یہ بھی درست ہے کہ غزہ میں شہادتوں کی
تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن پاراچنار بھی کئی حوالوں سے اس محصور علاقے سے شباہت
رکھتا ہے جن میں فاقے کرانا اور اشیائے خورد و نوش کی عدم ترسیل، ادویات کی قلت
اور اطفال اور نوزائیدہ بچوں اور بدحال مریضوں کی اموات، محاصرہ اور جبر و ظلم اور
سب سے بڑھ کر "جبری نقل مکانی کی سازش" شامل ہے۔
ایک چیز البتہ پاراچنار کے لئے مختص ہے اور وہ یہ ہے کہ یہودی فلسطینیوں
کو گولی مار کر شہید کرتے ہیں اور یہاں کے تکفیری قاتل گولی مارنے کے بعد سر تن سر
جدا کرتے ہیں، مثلہ کرتے ہیں، بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں
عراق سے آئے ہوئے دو شیعہ مسافروں کے ساتھ ہؤا اور ان میں سے ایک کے بےجان جسم کو
19 ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا تھا؛ یہ چیز صرف داعش، جبہۃ النصرہ (موجودہ ہیئت تحریرالشام)،
اور ٹی ٹی پی کے خوارج یا تکفیری کی رو میں بہنے والے علاقے کے مقامی تکفیری ہی کر
سکتے ہیں، یہ جتانے کے لئے کہ وہ صہیونیت اور امریکہ کے، خود یہودیوں اور امریکیوں
سے زیادہ وفادار ہیں! اور
ان کے مفاد میں بہت آگے بڑھ سکتے ہیں اور وہ بھی ایسے حال میں کہ غزہ کے سنیوں کو
امداد کی ضرورت ہے، اور یہی لوگ انہیں اس بہانے نظر انداز کر رہے ہیں، کہ گویا یہ
تو ایران اور اسرائیل کی لڑائی ہے!
بے شک پاراچنار کا ایک علاقہ خوبصورت بھی ہے، اور تزویراتی اہمیت بھی
رکھتا ہے، یہاں سے کابل بہت نزدیک ہے اور پاکستان کے لئے اس کی اہمیت غیر معمولی
ہے لیکن پاکستان کے لئے یہاں لڑائیاں لڑنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہاں کے عوام
کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ، ریاست کے وفادار ہيں اور سرحدوں کی حفاظت بھی کرتے ہیں
اور وقت پڑنے پر فوج کی مدد بھی کرتے ہیں، اور جب دوسری قبائلی ایجنسیوں میں
پاکستانی پرچم اتارا گیا تھا اور سرکاری اداروں کے اہلکار شہروں میں ظاہر نہیں ہو
سکتے تھے اور اگر کوئی بھی سرکاری اہلکار اپنے دفاتر اور اداروں سے نکلتا تو اس کا
سر قلم کیا جاتا تھا، کرم ایجنسی میں ـ محاصرے اور قتل و غارت اور شدید جنگوں کا
شکار ہونے کے باوجود، [جس میں موجودہ کشیدگی کی مانند، کم از کم پاراچنار کی حد تک]،
خوارج اور تکفیریوں کو سرکاری اداروں کی حمایت بھی حاصل تھی، ـ یہاں کے عوام نے
پاکستان کا پرچم بلند رکھا اور سرکاری اداروں اور اہلکاروں کو تحفظ دیا؛ لیکن اس
کے باوجود جب دیکھا جاتا ہے کہ حکومت بھی اور فوج بھی کرم میں لڑائیاں لڑوانے کی
شوقین ہیں، تو يقینا اس کے تانے بانے کہیں اور سے ملتے ہیں۔
یہ لڑائی در حقیقت 1987ع میں امریکی صدر ریگن کے زمانے سے شروع ہوئی
ہے جس کا بنیادی مقصد یہ علاقہ شیعوں سے خالی کرانا اور یہاں امریکی اڈے قائم کرنا
تھا جہاں سے امریکہ پاکستان پر بھی نظر رکھ سکتا ہے اور اس کے اندر شرانگیزیاں بھی
کروا سکتا ہے اور افغانستان کو بھی غیر مستحکم رکھ سکتا ہے جیسا کہ وہ آج بھی
خوارج کہلانے والے دہشت گردوں کے توسط سے آج بھی کر رہا ہے اور کر سکتا ہے۔
ہم برسوں سے جانتے ہیں کہ واقعہ کیا ہے، اور یہ کہ ہدف پاراچنارکے شیعوں
کی یہاں سے نقل مکانی ہے جن کی رہائش کے لئے ـ بعض ذرائع کے مطابق ـ پنجاب میں کوئی
زمین بھی مختص کی گئی ہے، خیمے بھی آئے ہیں، اور مختص کردہ زمین میں ان کے لئے خیمہ
بستیاں قائم کرنے کا اہتمام کیا جائے گا اور پھر انہیں شاید اسی علاقے میں بحال کیا
جائے گا!
اگر یہ منصوبہ ابھی تک ناکام رہا ہے تو وجہ یہ ہے کہ یہاں کے عوام
بہت بہادر اور اپنے حق کے لئے جان کی بازی لگانے میں دیر نہیں کرتے۔ وہ سرزمین کرم
کو اپنی ناموس سمجھتے ہیں، یہاں ان کے ماں باپ اور دادا پردادا کے مزارات نیز امام
زادگان کی زیارتگاہیں ہیں۔ یہاں ان کی امام بارگاہیں اور مساجد ہیں اور ان کے
اسلاف کے انمٹ نقوش ہیں جن کی حفاظت کو وہ اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں؛ ورنہ تو یہ
سرزمین کب کی ہاتھ سے نکل چکی ہوتی اور یہاں امریکی طیاروں کا اڈہ بن چکا ہوتا!
جو لوگ اس سرزمین میں لڑی جانے والی استعماری جنگ کو زمین کے تنازعات
یا قومی اختلافات کا شاخسانہ سمجھتے ہیں وہ پس پردہ حقائق جاننے کی استعداد سے
عاری ہیں یا پھر وہ اپنے دنیاوی اور سیاسی مفادات کی خاطر ان حقائق سے چشم پوشی
کرتے ہیں، یقینا انہیں اپنی سوچ کی اصلاح کرنا چاہئے، اور دیکھنا چاہئے کہ اگر یہ
زمینی تنازعہ تھا تو اچانک چاروں طرف سے جنگ کے آغاز کا کیا جواز ہوسکتا تھا؟ اور
اگر یہاں کے اختلافات مقامی ہیں جس کی کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک نادان وزیر نے
مسلسل کی رٹ لگا رکھی ہے، تو 2007ع سے 2012ع تک کی جنگ میں القاعدہ کا نمبر 4
ابو اللیث اللیبی یہاں کیا کر رہا تھا اور پاراچنار کی مسجد اہل سنت میں پاکستانی
فوج کے ہاتھوں سینکڑوں ہلاک شدگان میں افریقہ سے چیچن اور ازبکستان اور مغربی ایشیا
سے یورپ تک کے دہشت گردوں کی موجودگی کا کیا جواز ہو سکتا تھا؟
اور اب ہم یہاں اپنے قارئین کے لئے ایک برطانوی پروفیسر پیغام پیش کر
رہے ہیں جو پاکستانی مقتدرین اور افغان حکومت نیز پاکستان کے منصف ذرائع ابلاغ اور
علماء و دانشوروں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔
"برطانوی پروفیسر ڈیوڈ ملر (Prof.
David Miller)
کا X پیغام کچھ یوں ہے:
"پاراچنار کے باشندے، شام کے باشندوں کی طرح، سپاہ صحابہ پاکستان (SSP) اور دیگر مسلح تکفیری عسکریت پسند گروہوں کی شکل میں تکفیری شاک
ٹروپس (اور حملہ آور) دہشت گردوں کی طرف سے برسوں سے وحشیانہ سزاؤں اور فرقہ
وارانہ تشدد کا شکار ہیں۔
یہ ٹولے پاراچنار کو اس کے شیعہ باشندوں سے خالی کرانے کی کوشش کر
رہے ہیں تاکہ ضلع کرم میں امریکی ایئربیس کی تعمیر میں مدد دی جا سکے، جس سے وہ
افغانستان اور پاکستان کی زیادہ مؤثر طریقے سے نگرانی اور ان دو ملکوں کو کنٹرول
کر سکے گا۔
آپ جدھر بھی دیکھیں، سلفی شناخت رکھنے والے دہشت پسندوں کی طرف سے پھیلائی
گئی حماقت (اور پاگل پن اور) فرقہ وارانہ منافرت امریکی سامراجی مقاصد کی نوکرانی [اور
اس کی خدمت میں مصروف] ہے۔
ویسے یہ والا اسلام ہے کس کا؟"
ڈیود ملر کے ایکس پیغام کی تصویر دیکھئے:
.......
110