رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: "میری امت میں جو بھی چالیس حدیثیں حفظ کرے گا ـ جن کی عوام کو ضرورت ہے ـ خداوند متعال روز قیامت اس کو فقیہ اور دانشور بناکر محشور فرمائے گا"۔

17 جولائی 2024 - 11:32
امام مہدی (علیہ السلام) کی شان میں امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی چالیس حدیثیں

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

مقدمہ

(یا صاحب الزمان ادرکنا)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ حَفِظَ مِنْ أُمَّتِي أَرْبَعِينَ حَدِيثاً مِمَّا يَحْتَاجُونَ إِلَيْهِ مِنْ أَمْرِ دِينِهِمْ بَعَثَهُ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ فَقِيهاً عَالِماً؛ [1]

میری امت میں جو بھی چالیس حدیثیں حفظ کرے گا ـ جن کی عوام کو ضرورت ہے ـ خداوند متعال روز قیامت اس کو فقیہ اور دانشور بناکر محشور فرمائے گا"۔

حفظ حدیث کے بارے میں مختلف احتمالات ہیں [2] ان احتمالات سے قطع نظر علمائے سابقین کے درمیان رائج روش یہ تھی کہ وہ عوام کی ضرورت کے مطابق مختلف دینی موضوعات کے حوالے سے چالیس حدیثوں کی تدوین کرکے دینی تعلیمات اور معارف کے نشر و اشاعت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

اسلامی علماء اور دانشور ـ اسلام کی ثقافتی سرحدوں کے محافظین کی حیثیت سے ـ دینی احکام اور تعلیمات کی حفاظت اور تقویت و ترویج کی غرض سے، اس امر کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ البتہ چالیس حدیثیں حفظ کرنے کی تلقین بہت ساری احادیث سے ثابت ہے اور یہ تلقین اس بات کا محرک تھی کہ اکثر علماء اپنی علمی، ثقافتی اور فکری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ چالیس حدیثوں کے مجموعوں کی تدوین سے بھی غافل نہیں ہوتے تھے؛ اور اس طرح وہ نہ صرف اسلامی ثقافت کے حوالے سے اپنے فرائض کی انجام دہی سے عہدہ برآ ہوتے تھے بلکہ ان روایات میں اس ثواب اور اخروی جزا و انعام و فضیلت کے حصول کے لغے بھی کوشاں رہتے تھے جن کا کہ وعدہ دیا گیا ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ تعلیم اور تبلیغ کی نئی روشوں کے رواج کے بعد چالیس حدیثوں کی تدوین کا سلسلہ بھی فراموشی کا شکار ہؤا یا کم از کم اس کی رونق ماند پڑ گئی؛ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مشینی زندگی کی وجہ سے انسانوں کے پاس وقت کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری موضوعات پر چالیس حدیثوں کے مجموعوں کی تدوین پہلے سے بھی زیادہ مفید اور ضروری ہے۔

ہمارا دور امام معصوم (علیہ السلام) کی غیبت کا دور ہے اور اس دور میں امامت کے مسئلے کی طرف توجہ اور امام زمانہ (علیہ السلام) سے متعلق تعلیمات سے روشناسی بہت زیادہ اہم ہے۔ دوسری طرف سے اس موضوع کی صحیح شناخت کا راستہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کی احادیث و روایات کی طرف رجوع کا راستہ ہے۔

بہرحال ہم نے حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے فرامین و ارشادات کا جائزہ لیا اور چالیس حدیثوں کا ایک مجموعہ تیار کیا جن کا تعلق حضرت صاحب الزمان (علیہ السلام) کی شخصیت کے مختلف پہلؤوں، آپؑ کی زندگی کے واقعات و حوادث، آپؑ کے دوستوں اور اصحاب کی خصوصیات اور آپؑ کے دوران حکومت سے ہے اور یہ مجموعہ موضوعاتی ترتیب سے اکٹھا کر لیا گیا ہے؛ اور چالیس حدیثوں کے مجموعے کی صورت میں شائقین کے استفادے کے لئے ان کی خدمت میں پیش کررہے ہیں؛ امید ہے کہ ہماری یہ قلیل خدمت اپنی حد تک فرہنگِ انتظار کی ترویج میں مَمِّد و معاون ہو۔

 سید صادق سید نژاد

 15 شعبان 1421

زمین حجت سے خالی نہیں رہتی

مکتب اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کے مطابق انسان امام معصومؑ کے بغیر نہیں رہتا اور زمین کبھی بھی خدا کی حجت حق سے خالی نہیں رہتی۔ کیونکہ امام معصومؑ کے بغیر انسان کے لئے صحیح ہدایت و کمال میسر نہیں ہے۔ علاوہ ازیں نظام کائنات کا وجود اور دوام خداوند متعال کی حجتوں کی برکت سے ہے۔ اس حقیقت پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) سے منقولہ احادیث میں متعدد بار تصریح و تاکید ہوئی ہے؛ البتہ امامؑ کی موجودگی کی کیفیت حالات پر منحصر ہے؛ کبھی تو حالات کسی حد تک سازگار ہوتے ہیں اور امامؑ معاشرے میں اعلانیہ طور پر حاضر ہوتے ہیں اور لوگ بھی انہیں پہچانتے ہیں اور امامؑ لوگوں کی دسترس میں ہوتے ہیں اور لوگوں کی بیچ رہتے ہیں مگر بعض حالات میں امامؑ کی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے یا ان مصلحتوں کی بنا پر ـ جو صرف خدا کے علم میں ہوتے ہیں ـ مشیتِ الٰہی کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کی آنکھوں سے دور ہوکر رہتے ہیں۔ اس حوالے سے متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔ اس موضوع سے بیشتر آگہی کے لئے امیرالمؤمنین امام علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی دو حدیثیں نقل کی جا رہی ہیں:

امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں دست بدعا ہوکر التجا کرتے ہیں:

"اَللَّهُمَّ إِنَّهُ لاَ بُدَّ لِأَرْضِكَ مِنْ حُجَّةِ لَكَ عَلَى خَلْقِكَ يَهْدِيهِمْ إِلَى دِينِكَ وَيُعَلِّمُهُمْ عِلْمَكَ لِئَلّا تَبْطُلَ حُجَّتُكَ وَلَا يَضِلَّ أَتْبَاعُ أَوْلِيَائِكَ بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَهُمْ بِهِ إِمَّا ظَاهِرٌ  لَيْسَ بِالْمُطَاعِ أَوْ مُكْتَتَمٍ مُتَرَقَّبٌ إِنْ غَابَ عَنِ اَلنَّاسِ شَخْصُهُمْ فِي حَالِ هِدَايَتِهِمْ فَإِنَّ عِلْمَهُ وَآدَابُهُ فِي قُلُوبِ اَلْمُؤْمِنِينَ مُثْبَتَةٌ فَهُمْ بِهَا عَامِلُونَ؛ [3]

بارخدایا! تیری زمین کے لئے ہر وقت ضرورت ہے کہ روئے زمین پر تیرے بندوں کے اوپر تیری حجت ہو جو لوگوں کو تیرے دین کی طرف ہدایت و راہنمائی فراہم کردے اور لوگوں کو تیرے علم کی تعلیم دیا کرے تا کہ تیری حجت باطل نہ ہو اور تیرے اولیاء کے پیروکار ـ تیری طرف سے ہدایت پانے کے بعد ـ گمراہی اور ضلالت سے بچے رہیں۔ تیری حجت یا تو ظاہر و آشکار ہے جبکہ لوگ اس کی اطاعت نہیں کرتے یا پھر آنکھوں سے اوجھل ہے اور لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں۔ گوکہ لوگوں کی ہدایت ہی کی حالت میں اس کا جسم اور ظاہری وجود لوگوں سے اوجھل اور غائب ہے مگر اس کا علم اور اس کے آداب مؤمنین کے قلوب میں برقرار اور استوار ہوتے ہیں اور وہ اس علم اور ان آداب پر عمل پیرا ہوتے ہیں"۔

"اللَّهُمَّ بَلَى لَا تَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّهِ بِحُجَّةٍ إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وَإِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللَّهِ وَبَيِّنَاتُهُ وَكَمْ ذَا وَأَيْنَ أُولَئِكَ؟ أُولَئِكَ وَاللَّهِ الْأَقَلُّونَ عَدَداً وَالْأَعْظَمُونَ عِنْدَ اللَّهِ قَدْراً يَحْفَظُ اللَّهُ بِهِمْ حُجَجَهُ وَبَيِّنَاتِهِ... أُولَئِكَ خُلَفَاءُ اللَّهِ فِى أَرْضِهِ وَالدُّعَاةُ إِلَى دِينِهِ؛ [4]

۔۔۔ بارخدایا! بے شک ایسا ہی ہے، زمین حق کے لئے قیام کرنے والے امام سے خالی نہیں رہتی؛ وہ یا تو آشکار و ظاہر اور معروف و مشہور ہوتا ہے یا خائف اور نہاں؛ تا کہ خدا کی روشن حجتیں اور دلیلیں (یعنى دین کے اصول و احکام اور انبیاء کی تعلیمات) نیست و نابود نہ ہوں۔ اور یہ کہ ان کی تعداد کتنی ہے اور وہ کہاں ہیں؟ خدا کی قسم ان کی تعداد بہت کم ہے مگر ان کی قدر و منزلت خدا کے نزدیک بہت عظیم ہے؛ خدا ان کے ذریعے اپنی حجتوں اور روشن دلیلوں کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ روئے زمین پر خدا کے جانشین اور نمائندے ہیں اور لوگوں کو دین اور خدا کے احکام و قوانین کی طرف بلاتے ہیں۔۔۔".

حضرت مہدى علیہ السلام كا نسب

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے کلام میں امام زمانہ (علیہ السلام) کی تعارف کے سلسلے میں کثیر احادیث پائی جاتی ہیں۔ اور ایک لحاظ سے ان روایات کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: آپؑ ایک قسم کی روایات میں امام زمانہ (علیہ السلام) کو اپنے فرزند کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں؛ دوسری قسم کی روایات میں آپؑ کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی اولاد میں اور تیسری قسم کی روایات میں آپؑ کو امام حسین (علیہ السلام) کی اولاد میں شمار کرتے ہیں۔

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"خَطَبَ أَمِيرُالمُؤْمِنِينَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ بِالْكُوفَةِ بَعْدَ مُنْصَرَفِهِ مِنَ النَّهْرَوَانِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثنَى عَلَيهِ وَ صَلَّى عَلَى رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ وَذَكَرَ مَا أنعَمَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ وَعَلَيْهِ ثُمَّ قالَ ... وَمِنْ وُلْدِي مَهْدِيُّ هَذِهِ الأُمَّةِ؛ [5]

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: امیرالمؤمنین على بن ابی طالب (علیہما السلام) جنگ نہروان کے بعد کوفہ لوٹے تو آپؑ نے لوگوں کے لئے خطبہ پڑھا۔۔۔ اس خطبے میں آپؑ نے سب سے پہلے خداوند متعال کی حمد و ثناء ادا کی اور رسول اللہ (ص) پر دورد و سلام بھیجا اور ان نعمتوں کو یاد کیا جو خداوند متعال نے رسول اللہ (ص) اور خود آپؑ پر عنایت کی تھیں اور پھر فرمایا: ۔۔۔ 'اور اس امت کے مہدی میری اولاد میں سے ہیں'۔"

زرّبن حبیش نے امیر المؤمنین (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا:

"اَلْمَهْدِيُّ رَجُلٌ مِنَّا مِنْ وُلْدِ فَاطِمَة؛ [6]

'مہدى ہم اہل بیت سے اور حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی اولاد میں سے ہیں'۔"

امام علی بن موسیٰ رضا (علیہ السلام) اپنے والد امام موسىٰ بن جعفر (علیہ السلام) سے، وہ اپنے والد امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے، وہ اپنے والد امام محمد باقر (علیہ السلام) سے، وہ اپنے والد امام زین العابدین (علیہ السلام) سے اور وہ اپنے والد امام حسین (علیہ السلام) سے اور وہ اپنے والد امیرالمؤمنین على بن ابیطالب‏ (علیہما السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے (امام حسین (علیہ السلام) سے مخاطب ہوکر) فرمایا:

"اَلتَّاسِعُ مِنْ وُلْدِكَ يَا حُسَيْنُ هُوَ اَلْقَائِمُ بِالْحَقِّ اَلْمُظْهِرُ لِلدِّينِ وَ اَلْبَاسِطُ لِلْعَدْلِ...؛ [7]

اے میرے فرزند حسین! تمہاری اولاد میں "نواں" قائم بر حقّ (مہدى (علیہ السلام) ) ہے جو دین کو فاتح و غالب کرے گا اور عدل و انصاف کو فروغ دے گا"۔

ابن عیاش الجوہری، اپنی کتاب مقتضب الأثر میں رقم طراز ہیں کہ شیخ ابوالحسین بن عبدالصمد بن على نے سنہ 285ھ میں عبید بن کثیر کے ہاں، نوح بن دراج سے، انھوں نے یحییٰ سے، اعمش سے، زید بن وہب سے، ابو جحیفہ اور حارث بن عبداللہ ہمدانی اور حارث بن شرب سے، اور ان سب نے ہمیں خبر دی کہ وہ علی بن ابی طالب (علیہما اسلام) کی خدمت میں شرفیاب تھے کہ امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) داخل ہوئے، تو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے آپؑ سے فرمایا:

"مَرْحَباً يَا بنَ رَسُولِ اللَّهِ وَإِذَا أَقْبَلَ الحُسَينُ يَقولُ بِأَبِي أَنْتَ يَا أَبَا ابْنِ خِيَرَةِ الْإِمَاءِ فَقِيلَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا بَالُكَ تَقُولُ هذا لِلحَسَنِ وهَذَا لِلْحُسَيْنِ وَمَنِ ابْنُ خِيَرَةِ الْإِمَاءِ فَقَالَ ذَاكَ اَلْفَقِيدُ اَلطَّرِيدُ اَلشَّرِيدُ م ح م د بْنُ اَلْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ علِيِّ بْنِ مُوسَى بْنِ جعفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ هَذَا وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْىسِ اَلْحُسَيْنِ عَلَيهِ السَّلَامُ؛ [8]

خوش آمدید، اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و الہ)؛ اور جب امام حسین (علیہ السلام) داخل ہوئے تو مولا نے آپؑ سے فرمایا: تمہارا باپ تم پر فدا ہو اے بہترین کنیزوں [9] کے بیٹے کے باپ! پوچھا گیا کہ کیا ہؤا اے ابو الحسن! کہ آپ نے حسن (علیہ السلام) سے یہ فرمایا اور حسین (علیہ السلام) سے یہ فرمایا؟ اور یہ بہترین کنیزوں کا بیٹا کون ہے؟ تو امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے  فرمایا: وہ ایک گمشدہ ہے جو اپنے اقارب اور رشتہ داروں اور اپنے وطن سے دور ہے۔ اس کا نام "م ـ ح ـ م ـ د" ہے اور حسن بن على بن محمد بن على بن موسىٰ بن جعفر بن محمد بن على بن الحسین کا فرزند ہے؛ اس کے بعد آپؑ نے اپنا دست مبارک امام حسین (علیہ السلام) کے سر مبارک پر پھیرا اور فرمایا: حسین یہی ہیں"۔

حضرت مہدى علیہ السلام كا خاندان

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) امام مہدى (علیہ السلام) کے خاندان کا تعارف کراتے ہوئے مختلف تعبیرات سے استفادہ کرتے ہیں اور ہر تعارف حقائق کے کسی ایک پہلو پر کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ تعبیرات جب دوسرے ائمۂ طاہرین (علیہم السلام) سے منقولہ تعبیرات و توصیفات کے ساتھ ملا دیا جائے تو انسان ان کا مطالعہ کرکے امام مہدی (علیہ السلام) کی ذات با برکات سے پوری طرح سے واقف ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر آپؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں: مہدی قریش میں سے ہیں

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: مہدی بنوہاشم میں سے ہیں

تیسرے مقام پر فرماتے ہیں: مہدی عترت نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے ہیں۔۔۔

ان میں سے ہر تعبیر امام زمانہ (علیہ السلام) کی شخصیت کے کسی ایک پہلو پر دلالت کرتی ہے۔ جبکہ الفاظ اور عبارات کا یہ اختلاف کسی تضاد و تنافی کا باعث نہیں بنتا اور یہ سب تعبیرات ایک ہی نورانی حقیقت کے اوصاف کو عیاں کرتی ہیں۔

امام حسین (علیہ السلام) نے فرماتے ہیں کہ ایک شخص امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہؤا اور پوچھا:

"يَا أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ نَبِّئْنَا بِمَهْدِيِّكُمْ هَذَا فَقَالَ إِذَا دَرَجَ الدَّارِجُونَ وَقَلَّ الْمُؤْمِنُونَ وَذَهَبَ المُجْلِبُونَ فَهُنَاكَ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْكَ السَّلَامُ مِمَّنِ اَلرَّجُلُ؟ فَقَالَ مِنْ بَنِی هَاشِمٍ مِنْ ذِرْوَةِ طَوْدِ الْعَرَبِ؛ [10]

یا امیرالمؤمنین! ہمیں مہدی آل محمد (علیہم السلام) کے بارے میں بتایئے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: 'جب جانے والے چلے جائیں اور اہل ایمان کی تعداد کم ہوجائے اور بلوائی اور جنگ پسند عناصر نیست و نابود ہوجائیں، ایسے ہی حالات میں وہ ظہور فرمائیں گے'۔ پوچھنے والے مزید پوچھا: 'یا امیرالمؤمنین! درود و سلام ہو آپ پر! ہمیں یہ بھی بتا دیجئے کہ حضرت مہدى (علیہ السلام) کس خاندان سے ہیں؟ حضرت امیر (علیہ السلام) نے فرمایا: 'وہ خاندان بنی ہاشم میں سے ہیں جو عرب كا بہترین خاندان اور شرف و جوانمردی كی چوٹی سمجھا جاتا ہے"۔

"عَنْ إِبْنِ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيِّ الْمِصْرِيِّ [إِنَّهُ] سَمِعَ عَلِيّاً عَلَيْهِ السَّلاَمُ: يَقُولُ هُوَ مِنْ عِتْرَةِ اَلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ؛ [11]

عبد اللہ بن زُرُیر الغافقی المصری سے مروی ہے کہ انھوں نے امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ 'مہدی (علیہ السلام) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عترت [خاندان] سے ہیں"۔

"قَالَ عَلِيُّ بْنُ اَبِي طَالِبٍ: هُوَ فَتًى مِنْ قُرَيْشٍ ...؛ [12]

على بن ابی طالب (علیہما السلام) نے فرمایا: حضرت مہدى (علیہ السلام) قبیلۂ قریش سے ہیں"۔

حضرت مہدی علیہ السلام كا نام مبارک

امیر المؤمنین (علیہ السلام) کے کلام میں حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کا نام مبارک مختلف روشوں سے سامنے آتا ہے:

ایک مقام پر آپؑ کے نام پر تصریح حرام قرار دی گئی ہے؛

دوسرے مقام پر آپؑ کا نام اشارتاً لیا گیا ہے اور آخر کار ایک مقام پر صراحت کے ساتھ آپؑ کا مخصوص نام سامنے آیا ہے۔

جابر بن یزید الجعفی کہتے ہیں، کہ میں نے امام ابو جعفر محمد باقر (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا:

"سَأَلَ عُمَرُ أَمِيرَالْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَنِ الْمَهْدِيِّ فَقَالَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَخْبِرْنِي عَنِ اَلْمَهْدِيِّ، مَا اِسْمُهُ؟ قَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: أمَّا إِسْمُهُ فَلَا إِنَّ حَبِيبِي وَخَلِيلِي عَهِدَ إِلَيَّ أنْ لَّا أُحَدِّثَ بِإِسْمِهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلٌ وَهُوَ مِمَّا اسْتَودَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ رَسُولَهُ فِي عِلْمِهِ؛ [13]

اے فرزند ابوطالب! مجھے مہدی کے بارے میں بتا دیجئے؟ مجھے ان کا نام بتائیں۔ تو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: جہاں تک ان کے نام کا تعلق ہے، تو وہ نہیں بتاؤں گا کیونکہ میرے حبیب و خلیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھ سے عہد لیا ہے کہ میں ان کا نام کسی کے سامنے بیان نہ کروں حتیٰ کہ خداوند متعال انہیں مبعوث فرمائے اور یہ ان امور میں سے ہے جنہیں خداوند عز و جل نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پاس ودیعت رکھے ہیں"۔

علی بن ابی طالب (علیہما السلام) نے فرمایا:

"الْمَهْدِيُّ مَوْلِدُهُ بِالْمَدِينَةِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ اَلنَّبِيِّ إِسْمُهُ إِسْمٌ نَبِيٌ؛ [14]

مہدى (علیہ السلام) کی ولادت مدینہ میں ہوگی؛ وہ اہل بیت رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) میں سے ہیں اور وہ ایک نبی کے ہم نام ہیں"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے منسوب ایک شعر میں اسی بارے میں فرمایا گیا ہے:

فَثَمَّ یَقُومُ الْقَائِمُ الْحَقُّ مِنْكُمُو * بِالْحَقِّ يَأتِيكُمْ وَبِالْحَقِّ يَعْمَلُ

سَمِيُّ نَبِيِّ اَللَّهِ نَفْسِي فِدَاؤُهُ * فَلا تَخْذُلُوهُ يا بُنِيَّ وَعَجِّلُوا؛ [15]

اس كے بعد تم ہی میں سے قائم بالحق قیام کریں گے

وہ حق ساتھ لائیں گے اور حق پر عمل پیرا ہونگے

میری جان ان پر فدا ہو كہ وہ نبی اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) كے ہم نام ہیں

اے میرے فرزندو! انہیں بے یار و مددگار مت چھوڑنا اور ان كی نصرت كے لئے عجلت سے كام لو

 اس روایت میں آپؑ کا نام صریح طور پر بیان ہؤا ہے

"عَنْ عَلِيٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: إِسْمُ الْمَهْدِيِّ مُحَمَّدٌ؛ [16]

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: حضرت مہدى (علیہ السلام) کا نام 'محمد' ہے"۔

امام مہدی (علیہ السلام) كا حلیۂ مبارک

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی روایات کے ایک حصے میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی جسمانی خصوصیات و امتیازات کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔ ایک روایت میں یہ خصوصیات کلی طور پر بیان ہوئی ہیں۔ جہاں آپؑ فرماتے ہیں کہ حضرت مہدی (علیہ السلام) خلقت کے لحاظ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے شباہت رکھتے ہیں مگر دیگر روایات میں امام زمانہ (علیہ السلام) کے حلیۂ مبارک اعضائے جسمانی کی خصوصیات بیان کرتے ہیں۔

حضرت امیر (علیہ السلام) حضرت مہدی (علیہ السلام) کی جسمانی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں:

"رَجُلٌ أَجْلَى اَلْجَبِينِ أَقْنَى اَلْأَنْفِ ضَخْمُ اَلْبَطْنِ أَزْيَلُ اَلْفَخِذَيْنِ بِفَخِذِهِ اَلْيُمْنَى شَأْمَةٌ أَفْلَجُ اَلثَّنَايَا وَيَمْلَأُ اَلْأَرْضَ عَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَجَوْراً؛ [17]

امام مہدی (علیہ السلام) کی جبین بلند اور درخشان، ناک نقشے کی تراش خوبصورت، پیٹ نسبتاً بڑا اور ران چوڑے، دانت سفید اور چمکیلے ہیں اور دائیں ران پر ایک نشان ہے؛ اور آپؑ زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے پر ہو چکی ہوگی"۔

مہدى (علیہ السلام) کے اوصاف

حضرت امیر (علیہ السلام) سے منقولہ بعض احادیث میں امام زمانہ (علیہ السلام) کی روحانی اور اخلاقی خصوصیات بیان ہوئی ہیں؛ مثال کے طور اس حدیث کی طرف توجہ فرمایئے:

"... ثُمَّ رَجَعَ إِلَی صِفَةِ الْمَهْدِیِّ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ) فَقَالَ أَوْسَعُكمْ كهْفاً وَأَكثَرُكمْ عِلْماً وَأَوْصَلُكمْ رَحِماً اللَّهُمَّ فَاجْعَلْ بَعْثَهُ خُرُوجاً مِنَ الْغُمَّةِ وَ اجْمَعْ بِهِ شَمْلَ الْأُمَّةِ؛ [18]

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اپنا خطبہ جاری رکھتے ہوئے امام مہدی (علیہ السلام) کے اوصاف کی طرف پلٹ آئے اور فرمایا: آپؑ کا آستانہ ـ بےپناہ لوگوں کو پناہ دینے کے سلسلے میں ـ تم سب کے آستانوں سے وسیع تر ہے؛ آپؑ کا عمل و دانش تم سب سے زیادہ ہے؛ اور تم سب سے زیادہ صلۂ ارحام کا لحاظ رکھنے والے اور اقارب کا حق قربت ادا کرنے والے ہیں؛ اے پروردگارا! آپؑ کی بیعت کو غم و اندوہ کے پردوں سے نکلنے کا سبب قرار دے اور امت اسلامی کے اختلاف و تفرقے کو آپؑ کے ہاتھوں یگانگت و یکجہتی میں بدل دے..."۔

اصبغ بن نباتہ روایت کرتے ہیں: میں نے امیر المؤمنین (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا:

"... صَاحِبُ هَذَا اَلْأَمْرِ اَلشَّرِيدُ اَلطَّرِيدُ اَلْفَرِيدُ اَلْوَحِيدُ؛ [19]

اس امر کے مالک (صاحب الامر) مہدى (علیہ السلام) وہ ہیں جو شرید (بے گھر)، طرید، (نکال باہر کئے گئے)، فرید (الگ تھلگ) اور وحید (بالکل تنہا) ہیں"۔

امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت

حضرت مہدی (علیہ السلام) کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ایک نہایت اہم واقعہ غیبت کا وقوع ہے۔ یہ واقعہ دو مرحلوں میں رونما ہؤا ہے۔

غیبت صغرىٰ جو  سنہ 260ھ میں امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد واقع ہوئی اور سنہ 329ھ تک جاری رہی۔

غیبت کبرىٰ، جو سنہ 329ھ میں غیبت صغریٰ کے خاتمے پر شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ارشادات میں اس موضوع اور دوران غیبت پیش آنے والے واقعات کی طرف بھی اشارے ہوئے ہیں۔ ایک روایت کے ضمن میں ـ جسے حضرت عبد العظیم حسنى (علیہ السلام) نے اپنے سلسلۂ سند کے ساتھ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) سے نقل کیا ہے ـ یوں بیان ہؤا ہے:

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لِلْقَائِمِ مِنَّا غَيْبَةٌ أَمَدُهَا طَوِيلٌ كَأَنِّي بِالشِّيعَةِ يَجُولُونَ جَوَلاَنَ اَلنَّعَمِ فِي غَيْبَتِهِ يَطْلُبُونَ اَلْمَرْعَى فَلاَ يَجِدُونَهُ أَلاَ فَمَنْ ثَبَتَ مِنْهُمْ عَلَى دِينِهِ وَ لَمْ يَقْسُ قَلْبُهُ لِطُولِ أَمَدِ غَيْبَةِ إِمَامِهِ فَهُوَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ...؛ [20]

ہمارے قائم کے لئے ایک غیبت ہے جس کی مدت بہت طویل ہوگی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے شیعہ اس زمانے میں بِن مالک ریوڑ کی مانند دشت و صحرا میں منتشر ہوکر چراگاہ و مرتع کی تلاش میں ہیں، مگر ان کی یہ تلاش بےسود ہے۔ [یعنی امام کو تلاش کرنے کی غرض سے نکلتے ہیں مگر آپؑ تک نہیں پہنچ پاتے]۔ آگاہ رہو! اس دور میں ان (شیعوں) میں سے جو بھی اپنے دین اور عقیدے پر استوار رہے اور اپنے امام کی طویل غیبت کی وجہ سے سنگ دلی اور قساوت قلبی کا شکار نہ ہو، وہ روز قیامت میرے پاس اسی مقام پر ہوگا جہاں میں ہونگا"۔

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے ایک دن قائم (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا اور فرمایا:  

"أَمَا لَيَغِيبَنَّ حَتَّى يَقُولَ اَلْجَاهِلُ مَا لِلَّهِ فِي آلِ مُحَمَّدِ حَاجَةٌ؛ [21]

آگاہ رہو کہ ان کی غیبت طویل ہوگی یہاں تک کہ [جو لوگ خدا کی مصلحتوں سے] آگہی نہیں رکھتے کہہ دیں گے: خدا کو آل محمد (ص) کی حاجت نہیں ہے اور آل محمد (ص) کے لئے خدا کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے"۔

یعنی یہ کہ نادان لوگ امام کی طویل غیبت کی وجہ سے آپؑ کے ظہور سے مأیوس اور نا امید ہو جائیں گے۔

امام زمانہ علیہ السلام كی غیبت كا سبب

اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کے مجموعے میں امام عصر(علیہ السلام) کی غیبت کے لئے متعدد حکمتیں اور اسباب بیان ہوئے ہیں۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی روایات میں کم از کم تین اسباب بیان ہوئے ہیں؛ یعنى:

·       اہل ہدایت کا اہل گمراہی و ضلالت سے پہچانا جانا

·       امام کی گردن پر سلاطین اور حکمرانوں کی بیعت کا نہ ہونا

·       لوگوں کی کوتاہیاں، ظلم و ستم اور نا شکری

حضرت امیر علیہ السلام کے کلام میں فلسفہ غیبت کے یہ تین اسباب بیان ہوئے ہیں۔

"إِنَّ اَلْقَائِمَ مِنَّا إِذَا قَامَ لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ فَلِذَلِكَ تَخْفَى وِلاَدَتُهُ وَيَغِيبُ شَخْصُهُ؛ [22]

بتحقیق ہمارے قائم جب قیام کریں گے کسی کی بیعت ان کی گردن پر نہ ہوگی؛ اسی وجہ سے ان کی ولادت خفیہ رہے گی اور خود بھی لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجائیں گے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے امام حسن (علیہ السلام) اور امام حسین (علیہ السلام) کی موجودگی میں فرمایا:

"أمَّا وَاللَّهِ لَأُقْتَلَنَّ أنَا وَابْنَايَ هَذَانِ وَلَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ رَجُلاً مِنْ وُلْدِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ يُطَالِبُ بِدِمَائِنَا وَلَيَغِيبَنَّ عَنْهُمْ تَمْيِيزاً لِأَهْلِ الضَّلالَةِ حَتَّى يَقُولَ اَلْجَاهِلُ مَا لِلَّهِ فِي آلِ مُحَمَّدٍ مِنْ حَاجَةٍ؛ [23]

اے لوگو! آگاہ رہو کہ میں اور میرے یہ دو بیٹے قتل کئے جائیں گے۔ اور آخر الزمان میں خدائے متعال میری اولاد میں سے ایک مرد کو مبعوث فرمائے گا تا کہ ستمگروں سے ہمارے خون کا مطالبہ کریں؛ وہ لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے تا کہ گمراہی اور ضلالت میں مبتلا لوگ دوسروں سے پہچانے جائیں [اور ان کی تمیز و تشخیص ممکن ہوجائے] اور یہ غیبت اتنی طویل ہوجائے گی کہ نادان لوگ کہہ دیں گے کہ خدائے متعال کا آل محمدؐ کے لئے کوئی منصوبہ ہے نہیں ہے"۔

مفضل بن عمر نے امام صادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے منبر کوفہ پر رونق افروز ہوکر فرمایا:

"وَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لا تَخلو مِن حُجَّةٍ لِلَّهِ وَلَكِنَّ اللهَ سَيُعْمِي خَلْقَهُ مِنْهَا بِظُلْمِهِمْ وَجَوْرِهِمْ وَإِسْرَافِهِمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ؛ [24]

ایک روز امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے مسجد کوفہ کے منبر پر رونق افروز ہوکر فرمایا: ۔۔۔ لوگو! جان لو کہ زمین کبھی بھی حجت خدا (امام معصوم) سے خالى نہ رہےگی؛ لیکن خداوند متعال بہت جلد لوگوں کو ظلم و ستم اور اپنے اوپر اسراف کی وجہ سے اپنی حجت کے دیدار سے محروم فرمائے گا"۔ [یعنى لوگ اپنے ہے اعمال کی وجہ سے مستقبل میں امام معصوم (علیہ السلام) کی ملاقات سے محروم ہوجائیں گے]۔

انتظارِ فَرَج كی فضیلت

جیسا کہ پیشتر اشارہ ہؤا، امام زمانہ کی غیبت کے دور میں بہت ہی شدید قسم کی مشکلات اور دشواریاں ظاہر ہونگی اور صورت حال یہ ہوگی کہ بہت سے لوگوں کے عقائد ان مصائب و مسائل کی وجہ سے متزلزل ہوجائیں گے۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات میں اس قسم کے خطرات کا سدباب کرنے کے لئے بہت سے تنبیہات دی گئی ہیں اور لوگوں کے ذہن کو روشن کیا گیا ہے۔ ان ہی ہدایات و تنبیہات کے دو نمونے حضرت امیر (علیہ السلام) کے کلام میں وارد ہوئے ہیں:‌

محمد بن مسلم امام صادق (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے اپنے آباءِ طاہرین (علیہم السلام) سے نقل کیا ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"انْتَظِرُوا الْفَرَجَ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ فَإِنَّ أَحَبَّ الْأعْمَالِ إلَى اللهِ عَزَّ وَجَل انْتِظَارُ الْفَرَجِ وَالمُنْتَظِرُ لِأَمْرِنَا كَالْمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فِى سَبِيلِ اللَّهِ؛ [25]

 [امام زمانہ (علیہ السلام)] کے فَرَج [و فراخی اور چین و سکون کے ایام] کا انتظار کرو اور خدا کی عنایات و توجہات سے ناامید مت ہو۔ بے شک خداوند متعال کی بارگاہ میں بہترین و برترین عمل [امام زمانہ (علیہ السلام)] کے فَرَج [و فراخی اور چین و سکون] کا انتظار کرنا ہے؛ اور جو شخص ہمارے امر [امام زمانہ (علیہ السلام) کی عالمی حکمرانی] کا انتظار کرے گا، وہ اس مجاہد کی مانند ہوگا جو راہ حق میں اپنے خون میں تڑپا ہؤا ہو [یعنی اس کا اجر شہید کے برابر ہے]"۔

زید بن صوحان العبدی نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا:

"يَا أَمِيرَالمُؤمِنِينَ! أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ عَلَيهِ السَّلَامُ: انْتِظارُ الْفَرَجِ مِنْ أَعْظَمِ الْفَرَجِ؛ [26]

یا امیرالمؤمنینؑ! اللہ عزّ و جلّ کے ہاں زیادہ محبوب اور پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا: انتظارِ فَرَج [یعنی مولا امام عصر (علیہ السلام) کا انتظار کرنا، بہترین عمل ہے"۔

کہا جاسکتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے کلام میں امام زمانہ سے متعلق معارف و تعلیمات کا سب سے بڑا حصہ آخر الزمان کے حالات اور اس دور میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات سے مختص ہے۔ حضرت امیر (علیہ السلام) اس دور کے واقعات بیان کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تدبیریں بھی بیان فرماتے ہیں۔

یہ حوادث اور واقعات ثقافتی، معاشرتی، اخلاقی، تربیتی اور طبیعی مسائل پر مشتمل ہیں؛ چونکہ ان میں سے بہت سے مسائل اور خصوصیات کو ہمارے دور میں ـ کم از کم زندگی کے بعض شعبوں میں ـ دیکھا جاسکتا ہے، چنانچہ ہم ان واقعات و حوادث سے بہتر آگہی حاصل کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے بہتر تدبیریں اخذ کرنے کی غرض سے بعض نمونے پیش کرتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ ہماری زیادہ سے زیادہ ہوشیاری و بیداری کا سبب ہوں اور ان امور سے آگہی حاصل کرنے کے بعد ان کے عارضوں اور منفی ضمنی اثرات سے خود کو بھی اور اپنے معاشرے کو بھی بچا سکیں:

لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ جب ۔۔۔

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"يَأْتِى عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُقَرَّبُ فِيهِ إِلَّا الْمَاحِلُ وَلَا يُظَرَّفُ فِيهِ إِلَّا الْفَاجِرُ وَلَا يُضَعَّفُ فِيهِ إِلَّا الْمُنْصِفُ يَعُدُّونَ الصَّدَقَةَ فِيهِ غُرْماً وَصِلَةَ الرَّحِمِ مَنّاً وَالْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاسِ فَعِنْدَ ذَلِكَ يَكُونُ السُّلْطَانُ بِمَشُورَةِ النِّسَاءِ وَإِمَارَةِ الصِّبْيَانِ وَتَدْبِيرِ الْخِصْيَانِ؛ [27]

لوگوں پر وہ دور آئے گا جب لوگوں کے ہاں صرف وہی مقرّب ہوگا جو چغل خوری کرتا ہے اور لوگوں کی برائی بیان کرتے ہیں؛ بدکار اور فاجر ناہنجار شخص کے سوا کسی کو ہوشیار اور زیرک نہیں سمجھا جائے گا؛ اور صرف منصف افراد کو کمزور کیا جائے گا؛ خدا کی راہ میں صدقہ و خیرات کو خسارہ سمجھا جائے گا؛ صلۂ ارحام اور رشتہ داروں اور اقرباء کے ساتھ آنا جانا، احسان قرار دیا جائے گا؛ اور خدا کی بندگی اور اطاعت کو لوگوں پر فخر [فخرفروشی] و فوقیت کا وسیلہ سمجھا جائے گا؛ ایسے زمانے میں حکومت عورتوں کے مشورے، بچوں کی کارفرمائی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر سے ہوگی"۔

اصبغ بن نباتہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:

"يَظْهَرُ فِي آخِرالزَّمَانِ وَاقْتِرَابِ السَّاعَةِ وَهُوَ شَرُّ الأَزْمِنَةِ نِسْوَةٌ كَاشِفاتٌ عَارِيَاتٌ مُتَبَرِّجَاتٌ مِنَ اَلدِّينِ خَارِجَاتٌ وَإلَى الْفِتَنِ مَائِلاتٌ وَإِلَى الشَّهَوَاتِ وَاللَّذَّاتُ مُسْرِعَاتٌ لِلمُحَرَّمَاتِ مُسْتَحِلاتٌ وَفِي جَهَنَّمَ خَالِدَاتٌ؛ [28]

آخر الزمان اور قرب قیامت کے دور میں ـ جو کہ بدترین زمانہ ہے ـ ایسی عورتیں ظاہر ہونگی جو بے پردہ اور برہنہ [یا کم لباس] ہیں؛ ان کی زینتیں آشکار اور ہویدا ہیں؛ وہ عام لوگوں کی نظروں کے سامنے چلتی پھرتی ہیں؛ وہ دین سے خارج ہیں (اور احکام دین کی پابندی نہیں کرتیں)؛ فتنہ‏انگیز امور کی طرف مائل ہیں؛ شہوتوں اور لذت جوئیوں کی طرف مائل ہیں؛ خدا کے حرام کو حلال کرتی ہیں، اور جہنم میں داخل ہمیشہ کے لئے باقی ہونگی"۔

اور مولائے کانتات (علیہ السلام) نے فرمایا:

"وَفُقَهَاءُهُم يُفتونَ بِمَا يَشتَهُونَ وَقُضَّاتُهِم يَقولونَ مَا لَا يَعْلَمُونَ وَأَكْثَرُهُمْ بِالزُّورِ يَشْهَدُونَ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ دَرَاهِمُ كَانَ عِنْدَهُمْ مُوقَراً مَرْفُوعاً وَمَن يَعْلَمُونَ أنَّهُ مُقِلٌ فَهُوَ عَنْهُمْ مَوْضُوعٌ؛ [29]

آخرالزمان کے فقہاء اپنی دلی خواہشات کے مطابق فتوے دیں گے؛ ان کے قاضی وہ کچھ کہتے ہیں ایسی چیزوں پر فیصلے سنائیں گے جنہیں وہ جانتے تک نہیں؛ ان کی اکثریت جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں؛ ان کے نزدیک امیر اور صاحبان درہم و دینار عزیز و محترم ہونگے جبکہ غریب اور بے مال و منال لوگ ان کے نزدیک خوار و حقیر ہیں"۔

نزال بن سبرہ الہلالی الکوفی کہتے ہیں:

"خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيهِ السَّلامُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأثْنَى عَلَيهِ ثُمَّ قالَ سَلُونَى أَيُّهَا اَلنَّاسُ قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِى ثَلاَثاً فَقَامَ إِلَيْهِ صَعْصَعَةُ بْنُ صُوحَانَ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ اَلْمُؤْمِنِينَ! مَتَى يَخْرُجُ اَلدَّجَّالُ؟ ۔۔۔ فَقَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ اِحْفَظْ! فَإِنَّ عَلامَةَ ذَلِكَ إِذَا أَمَاتَ النَّاسُ الصَّلاةَ وَأَضَاعُوا الْأَمَانَةَ وَاسْتَحَلُّوا الْكَذِبَ وَأَكَلُوا الرِّبَا وَأَخَذُوا الرِّشَا وَشَيَّدُوا البُنْيَانَ وَبَاعُوا الدّينَ بِالدُّنيَا وَاسْتَعْمَلُوا السُّفَهاءَ وَشَاوَرُوا النِّساءَ وَقَطَعُوا الْأَرْحَامَ وَاتَّبَعُوا الْأَهْوَاءَ وَاسْتَخَفُّوا بِالدِّمَاءِ وَكَانَ الْحِلْمُ ضَعْفاً والظُّلْمُ فَخَرَاً؛ [30]

على بن ابی طالب (علیہما السلام) نے ہمارے لئے خطبہ پڑھا اور خدا کی حمد و ثناء ادا بجا لانے کے بعد تین مرتبہ فرمایا: مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان سے اٹھ جاؤں؛ چنانچہ صعصعہ بن صوحان اٹھے اور عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! دجال کس زمانے میں خروج کرے گا؟ حضرت امیر (علیہ السلام) نے فرمایا: یاد رکھو اسے جو میں کہتا ہوں! دجال اس وقت اٹھے گا جب لوگ نماز ترک کردیں گے؛ امانت کو ضائع کردیں گے؛ دروغ گوئی کو جائز و حلال سمجھیں گے؛ رباخواری (اور سودخوری) کریں گے؛ رشوت لیں گے اور دیں گے؛ عمارتوں کو مضبوط بنائیں گے؛ دین کو دنیا کے عوض بیچ ڈالیں گے؛ سفیہوں اور بے وقوفوں کو کارگزار بنائیں گے؛ عورتوں کے ساتھ مشورے کریں گے؛ صلۂ ارحام کو منقطع کردیں گے اور [رشتوں کو پامال کریں گے]، ہویٰ و ہوس کی پیروی کریں گے؛ ایک دوسرے کے خون کو نا چیز [اور سستا] سمجھیں گے؛ حلم اور بردباری کو کمزوری اور ضعف کی علامت سمجھیں گے اور ظلم و ستم کو اپنے لئے اعزاز و افتخار تصور کریں گے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ هِمَّتُهُمْ بُطُونُهُمْ وَشَرَفُهُمْ مَتَاعُهُم وَقِبِلَتْهُم نِسَاؤُهُمْ وَدِينُهُمْ دَرَاهِمُهُمْ وَدَنَانِيرُهُمْ أُولَئِكَ شِرَارُ اَلْخَلْقِ لاَ خَلاَقَ لَهُمْ عِنْدَ اَللَّهِ؛ [31]

 امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: لوگوں پر وہ زمانہ آئے گا جب ان کی ہمت ان کے پیٹ سے تجاوز نہیں کرے گی؛ ان کا شرف و اعتبار ان کے مال و متاع اور سازوسامان پر منحصر ہوگا۔ ان کا قبلہ ان کی عورتیں اور ان کا دین ان کے درہم و دینار ہیں؛ وہ بدترین لوگ ہیں جن کے لئے خدا کی بارگاہ میں کوئی حصہ اور کوئی نصیب نہیں ہے"۔

امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما السلام) نے فرمایا:

"يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُتَّبَعُ فِيهِ العَالِمُ وَلَا يُستَحيَى فيهِ مِنَ الْحَلِيمِ وَلَا يُوَقَّرُ فِيهِ الْكَبِيرُ وَلَا يُرْحَمُ فِيهِ الصَّغِيرُ يَقتُلُ بَعْضُهُم بَعْضاً عَلَى الدُّنْيَا۔۔۔؛ [32]

على بن ابیطالب (علیہما السلام) نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب لوگ علما کی پیروی نہیں کریں گے؛ حلیم و بردبار انسانوں سے حیا نہیں کریں گے [وہ لوگوں کی بدکاریوں کے سامنے جتنا بھی صبر و حلم اپنائے پھر بھی اس سے حیاء نہیں کرتے اور اس کے سامنے بدکاریاں جاری رکھتے ہیں]؛ اس زمانے میں بڑوں کی تکریم نہیں ہوتی اور بچوں پر رحم نہیں کیا جاتا؛ بعض لوگ بعض دوسروں کا خون بہاتے ہیں اورانہیں دنیا کی خاطر قتل کر دیتے ہیں"۔

عاصم بن ضمرہ السلولی الکوفی حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:

"لَتُمْلَأَنَّ اَلْأَرْضُ ظُلْماً وجَوْراً حَتَّى لَا يَقُولَ أَحَدٌ اَللَّهُ إِلَّا مُسْتَخْفِياً ثُمَّ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ صَالِحِينَ يَمْلَأُونَهَا قِسْطاً وَعَدْلاً كَمَا مُلِئَت ظُلْماً وَجَوْراً؛ [33]

زمین ضرور بضرور ظلم و ستم سے بھرجائے گی، کوئی بھی خدا کا نام زبان پر نہیں لائے گا ـ مگر خفیہ طور پر ـ اس دور کے بعد ہی خدائے متعال ایک صالح اور نیکوکار قوم کو لائے گا جو زمین کو قسط و عدل سے بھر دے گی جیسے کہ یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی"۔

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں: میں نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا:

"إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ الْقَائِمِ سِنِينَ خَدَّاعَةً يُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ وَيُقَرَّبُ فِيهَا الْمَاحِلُ وَفِي حَدِيثٍ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ فَقُلْتُ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ وَمَا الْمَاحِلُ‏ قَالَ أَوَمَا تَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ قَوْلَهُ - وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ [34] - قَالَ يُرِيدُ الْمَكْرَ فَقُلْتُ وَمَا الْمَاحِلُ قَالَ: يُرِيدُ الْمَكْرَ؛ [35]

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: قیام قائم (علیہ السلام) سے قبل مکر و دغابازی کے سال درپیش ہیں۔ جب سچے لوگوں کو جھٹلایا جائے گا اور جھوٹا سمجھا جائے گا، جھوٹے لوگوں کی تصدیق کی جائے گی اور انہیں سچا سمجھا جائے گا؛ "ماحل" مقرّب ہوجائے گا اور "رویبضہ" بولنے میں دوسروں پر سبقت لے گا۔ راوی کہتا ہے: میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین "رویبضہ" کیا ہے اور "ماحل" کون ہے؟ تو حضرت امیر (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تم قرآن میں اللہ کا یہ ارشاد نہيں پڑھتے ہو 'اور وہ سخت قوت [اور انتقام] والا ہے، اور فرمایا: ماحل وہ شخص ہے جو مکر و حیلہ گری کرتا ہے اور زیادہ مکر کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے"۔

ایک نکتہ: اس حدیث میں راوی نے رویبضہ کے سلسلے میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی وضاحت نقل نہیں کی ہے، مگر ایک دوسرے مقام پر کسی مناسبت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں:

"رُوَیبِضَةٌ: الرَّجُلُ التَّافِهُ یَنْطِقُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ؛ [36]

رویبضہ وہ پست و حقیر آدمی ہے جو پستی اور نا اہلی اور سفلگی کے باوجود لوگوں کے امور میں مداخلت کرتا ہے اور لوگوں کی جگہ، اظہار خیال کرتا ہے"۔

امام مہدى‏ (علیہ السلام) کے ظہور پرنور کی نشانياں

روایات میں نہ صرف امام زمانہ کی ظہور کے لئے وقت کا تعین نہیں ہؤا ہے بلکہ وقت کے تعین سے روکا بھی گیا ہے؛ تاہم ظہور کے لئے علائم اور نشانیوں کا بیان موجود ہے۔ اور لوگ ان علامتوں اور نشانیوں کی روشنی میں قرب ظہور کی تشخیص کرسکتے ہیں۔ یہ نشانیاں کئی قسموں میں تقسیم کی جاتی ہیں: حتمی نشانیاں اور غیر حتمی  نشانیاں؛ سال ظہور کی نشانیاں، ظہور سے دور کے برسوں کی نشانیاں، معاشرتی نشانیاں، اخلاقی نشانیاں اور طبیعی یا فطری نشانیاں؛ وغیرہ

یہ تمام نشانیاں حتمی اور غیر حتمی نشانیوں کے زمروں میں آتی ہیں۔

ان علامتوں اور نشانیوں کے سلسلے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے کلام میں صرف دو نمونوں پر اکتفا کیا جاتا ہے؛

ابو رومان نقل کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِذَا نَادَى مُنَادٍ مِنَ اَلسَّمَاءِ أَنَّ اَلْحَقَّ فِي آلِ مُحَمَّدٍ، فَعِنْدَ ذَلِكَ يَظْهَرُ اَلْمَهْدِيُّ عَلَى أَفْوَاهِ اَلنَّاسِ، وَيُشْرَبُونَ حُبَّهُ فَلاَ يَكُونُ لَهُمْ ذِكْرُ غَيْرِهِ؛ [37]

جب منادی آسمان سے ندا دے گا کہ "بتحقیق حق آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہمراہ ہے" ان ایام میں حضرت مہدی (علی السلام) کا نام لوگوں کا ورد زبان ہوجائےگا؛ پوری دنیا ان کے نام مبارک سے مالامال ہوجائے گی اور صورت حال یہ ہوگی کہ ان کے ہاں ذکرِ مہدی (علیہ السلام) کے سوا کوئی ذکر نہ ہوگا"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) اپنے آباء و اجداد سے، امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہما اسلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:

"إِذَا وَقَعَتِ النَّارُ فِى حِجَازِكُمْ وَجَرَى الْمَاءُ فِى نَجَفِكُم فَتَوَقَّعُوا ظُهُورَ قَائِمِكُم؛ [38]

جب تمہارے حجاز میں آگ شعلہ ور ہوگی اور تمہارے نجف میں سیلاب آئے گا تو اپنے امام قائم (علیہ السلام) کے ظہور کے ظہور کی امید رکھو"۔

اصحاب مہدى (علیہ السلام)

امام زمانہ (علیہ السلام) کے اصحاب کے اوصاف، ان کی تعداد، ان کے شہر، امامؑ کے ساتھ ان کے ربط و تعلق اور آپؑ کی بیعت و اتباع کی کیفیت کے بارے میں متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

حکیم بن سعد امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:

"أصْحَابِ الْمَهْدِيِّ شَبَابٌ لَا كُهُولَ فِيهِمْ إلاَّ مِثلُ كُحْلِ العَينِ وَالمِلْحِ فِي الزَّادِ وَأقَلُّ الزَّادِ الْمُلحُ؛ [39]

مہدى (علیہ السلام) کے اصحاب سب نوجوان ہیں؛ ان کے درمیان بوڑھا شخص نہیں پایا جاتا، مگر آنکھ میں سرمے یا کھانے میں نمک کی مقدار کے برابر؛ اور کھانے میں نمک کی مقدار سب سے کم ہے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"ثُمَّ إذَا قَامَ تَجْتَمِعُ إلَيْهِ أَصْحَابُهُ عَلَى عِدَّةِ أهْلِ بَدْرٍ وَأصْحَابِ طَالُوتَ وَهُمْ ثُلَثُمِأَةٌ وَثَلاثَةَ عَشَرَ رَجُلاً كُلُّهُمْ لُيُوثٌ قَدْ خَرَجُوا مِنْ غَابَاتِهِمْ مِثْلَ زُبَرِ اَلْحَدِيدِ لَوْ أَنَّهُمْ هَمُّوا بِإِزَالَةِ الجِبَال الرَّوَاسِي لَأَزَالُوهَا عَنْ مَوَاضِعِهَا فَهُمُ الَّذِينَ وَحَّدُوا اَللَّهَ بِهِ حَقَّ تَوْحِيدِهِ لَهُمْ بِاللَّيْلِ أَصْوَاتٌ كَأَصْوَاتِ اَلثَّوَاكِلِ خَوْفاً مِنْ خَشْيَةِ اَللَّهِ تَعَالَى قُوَّامُ اللَّيْلِ صُوَّامُ النَّهارِ وَكَأنَّما رَبَاهُم أبٌ وَاحِدٌ قُلُوبُهُمْ مُجْتَمِعَةً بِالْمَحَبَّةِ وَالنَّصِيحَةِ؛ [40]

پھر جب وہ قیام کریں تو ان کے اصحاب ان کے گرد جمع ہونگے اور ان کی تعداد اصحاب بدر اور اصحاب طالوت جتنی کے برابر 313 ہوگی۔ وہ سب اپنی کمینگاہوں سے نکلے ہوئے شیروں کی مانند ہیں؛ لوہے کے ٹکڑوں کی مانند، اگر وہ سخت اور مضبوط پہاڑوں کو اکھاڑنے کا ارادہ کریں تو یقیناً انہیں اکھاڑ دیں گے۔ تو یہی وہ لوگ ہیں جو مہدی (علیہ السلام) کے ذریعے خدا کی یکتائی پر ایمان رکھتے ہیں اور یکتا پرستی کا حق ادا کرتے ہیں؛ راتوں کو ان کی صدائیں ان عورتوں کی مانند ہیں جن کا جوان فرزند مرگیا ہو اور خدا کے خوف سے رات کو بہت زیادہ نماز پڑھتے ہیں اور دنوں کو بہت روزہ رکھتے ہیں؛ گویا ایک باپ اور [ایک ماں] نے ان کی پرورش کی ہے؛ محبت اور نصیحت و خیرخواہی کے سلسلے میں ان کے دل ایک اور متحد ہیں"۔

مہدی علیہ السلام كی حکومت

شیعیان اہل بیت (علیہم السلام) کے عقیدے کے مطابق، امام زمانہ (علیہ السلام) اسلام کی تعلیمات عالیہ کے مطابق ایک عالمی حکومت کی تشکیل کے ذریعے، پوری دنیا میں موجود کمیوں اور خامیوں کو دور اور عدل و انصاف کو پوری دنیا میں مستقر کردیں گے۔

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور تمام ائمہ (علیہم السلام) کے کلام میں حضرت مہدی (علیہ السلام) کی حکومت کی خصوصیات اور آپؑ کے دور حکومت میں انجام پانے والے امور کے بارے میں کثرت کے ساتھ متون ملتے ہیں جن کے مجموعے کا مطالعہ کرکے ایک اسلامی حکومت کا مکمل اور نہایت روشن و شفاف خاکہ نظروں کے سامنے آتا ہے۔ یہاں اسی حوالے سے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے منقولہ روایات کے بعض نمونے پیش خدمت ہیں:

عبداللہ بن مروان امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:

"يَلِي اَلْمَهْدِيُّ أَمَرَ اَلنَّاسَ ثَلاَثِينَ سَنَةً أَوْ أَرْبَعِينَ سَنَةً؛ [41]

حضرت مہدی (علیہ السلام) تیس یا چالیس برسوں تک لوگوں پر حکمرانی کریں گے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"يَعْطِفُ الْهَوَى عَلَى الْهُدَى إِذَا عَطَفُوا الْهُدَى عَلَى الْهَوَى وَيَعْطِفُ الرَّأْيَ عَلَى الْقُرْآنِ إِذَا عَطَفُوا الْقُرْآنَ عَلَى الرَّأْيِ ۔۔۔ فَيُرِيكُمْ كَيْفَ عَدْلُ السِّيرَةِ وَيُحْيِي مَيِّتَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ؛ [42]

(امام زمانہ (علیہ السلام) جب ظہور کریں گے) نفسانی خواہشات کو ہدایت اور رستگاری کی طرف لوٹائیں گے، جب لوگ ہدایت الٰہی اور تقویٰ و پارسائی کو نفسانی خواہشات کی پیروی کی طرف لوٹا چکے ہونگے؛ لوگوں کی آراء کو قرآن کے تابع کردیں گے، جب لوگ قرآن کو اپنے آراء و افکار کا تابع بنا چکے ہونگے ۔۔۔ وہ تمہیں دکھا دیں گے کہ کشور داری اور حکمرانی میں عدل کس طرح نافذ کیا جاتا ہے؛ اور قرآن و سنت کی مری ہوئی تعلیمات کو دوبارہ زندہ کریں گے"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"فَلا يَترُكُ عَبْداً مُسْلِماً إِلاّ اشْتَرَاهُ وأَعْتَقَهُ وَلَا غَارِماً إِلاَّ قَضَى دَيْنَهُ وَلَا مَظْلِمَةً لأَحَدَّ مِنَ النَّاسِ إِلاَّ رَدَّهَا وَلاَ يُقْتَلُ مِنْهُمْ عَبْدٌ إِلاّ ادَّى ثَمَنَهُ وَلاَ يَقْتُلُ قَتِيلَ إِلاَّ قَضَى عَنْهُ دَينَهُ وَألْحَقَ عِيَالَهُ فِى الْعَطَاءِ حَتَّى يَمْلَأُ إِلاَّرْضَ قِسْطاً وَعَدْلاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَجَوْراً وَعُدْوَاناً؛ [43]

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: حضرت مہدى (علیہ السلام) كسی مسلم غلام كو اپنے حال پر نہیں چھوڑیں گے اور مسلم غلاموں كو خرید كر آزاد كریں گے؛ روئے زمین پر كوئی بهی مقروض نہ رہے گا اور مقروضین كا قرض ادا كر دیں گے؛ جس كسی كا مظلمہ اور حق جس كسی كے ذمے بهی ہوگا آپؑ اسے صاحب حق كے پاس لوٹا دیں گے؛ مارے جانے والوں كی دیّت ادا كریں گے؛ جو شخص بهی مارا جائے گا آپؑ اس كا قرض ادا فرمائیں گے اور پسماندہ خاندانوں كے امور كا انتظام عام خاندانوں كی مانند چلائیں گے؛ حتیٰ كہ زمین كو قسط و عدل سے بهردیں جیسے كہ یہ ظلم و تجاوز سے بهری ہوئی ہوگی"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لَوْ قَدْ قَامَ قَائِمُنَا... لَذَهَبتِ الشَّحْناءُ مِنْ قُلُوبِ الْعِبَادِ وَاصْطَلَحَتِ السِّبَاعُ وَالْبَهائمُ حَتَّى تَمْشِيَ الْمَرْأَةُ بَيْنَ الْعِرَاقِ إِلَى الشَّامِ ... وَعَلَى رَأْسِهَا زِينَتُهَا لاَ يَهِيجُهَا سَبُعٌ وَلاَ تَخَافُهُ؛ [44]

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ۔۔۔ جب ہمارے قائم قیام کریں گے، بغض و کینہ بندگان خدا کے قلوب سے چلتا بنے گا، حتی کہ وحشی حیوانات اور درندے چرندے بھی ایک دوسری کے ساتھ سازگار ہوں گے؛ امن و امان کا حال یہ ہوگا کہ ایک اکیلی عورت عراق سے شام کا سفر اختیار کرسکے گی؛ جس کے سر پر اس کے زیورات اور اسباب زینت ہونگے اور نہ درندے اس کو ڈرائیں گے اور نہ ہی وہ ان سے خوفزدہ ہوگی"۔

حضرت مہدى‏ (علیہ السلام) قرآن میں

قرآنی آیات میں امام زمانہ (علیہ السلام) کا نام گرامی صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہؤا ہے مگر چونکہ ائمۂ معصومین (علیہم السلام) قرآن کے حقیقی مفسرین ہیں ان ذوات مقدسہ نے بہت سے آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے ان کی مہدویت اور امام زمانہ (علیہ السلام) کے معارف پر تطبیق فرمائی ہے۔ جن آیات کو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے امام زمانہ (علیہ السلام) سے متعلق قرار دیا ہے وہ یہ دو آیتیں ہیں:

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"النُّورُ الْقُرْآنُ، وَالنُّورُ إِسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اَللَّهِ تَعَالَى ... قَالَ اَللَّهُ تَعَالَى فِى سُورَةِ النُّورِ: اللَّهُ نُورُ السَّماوَاتِ وَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ ...؛ [45]

نور قرآن ہی ہے اور نور، اللہ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے؛ ۔۔۔ خدائے تعالیٰ سورہ نور میں ارشاد فرماتا ہے: خداوند متعال آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال اس چراغدان کی ہے جس میں چراغ ہو اور وہ چراغ ایک شیشے کے حُباب کے درمیان ہو جو ستارے کی مانند چمکتا ہؤا اور زیتون کے مبارک درخت [کے تیل] سے روشن ہے۔۔۔"۔

اس كے بعد حضرت امیر (علیہ السلام) نے فرمایا:

"فَالْمِشْكَاةُ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ وَالمِصْباحُ الوَصِيُّ وَالْأَوْصِيَاءُ عَلَيهِمُ السَّلامُ وَالزُّجاجَةُ فاطِمَةُ وَالشَّجَرَةُ الْمُبَارَكَةُ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ وَالْكَوْكَب الدُّرَيُّ الْقَائِمُ الْمُنْتَظَرُ الَّذِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلاً؛ [46]

مشكاة رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں اور مصباح وصی، اور تمام اوصیاء ہیں اور حباب یا شیشہ حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہیں اور كوكب دری یا روشن اور چمكتا ستارہ حضرت قائم المنتظر (علیہ السلام) ہیں جو زمین كو عدل سے مالامال کریں گے"۔

امیرالمؤمنین علی ‏بن ابی طالب (علیہ السلام) نے فرمایا:

"الْمُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ الْمَذْكُورُونَ فِي اَلْكِتَابِ اَلَّذِينَ يَجْعَلُهُمُ اَللَّهُ أَئِمّةً، نَحْنُ أَهْلَ البَيتِ يَبْعَثُ اللَّهُ مَهْدِيَّهُم فَيُعِزُّهُمْ وَيُذِلُّ عَدُوَّهُمْ؛ [47]

امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: روئے زمین پر مستضعفین ـ جن کا قرآن میں ذکر آیا ہے اور اللہ انہیں ائمہ قرار دے گا ـ ہم ہیں اور خداوند متعال ہمارے مہدیؑ کو آخر الزمان میں مبعوث فرمائے گا پس وہ انہیں [مستضعفین کو] عزت و تکریم سے نوازیں گے اور ان کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کردیں گے"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مآخذ و منابع

[1]۔ شیخ صدوق، محمد بن علی بن حسین بن موسیٰ بن بابَوَیْہ القمی، الخصال، ج2، ص541، ح15۔

[2]۔ حفظ حدیث کے بارے میں مختلف آراء ہیں جیسے: - ذہن نشین کرنا۔ ذہن نشین کرنے یا لکھنے اور دوسروں کے لئے نقل کرنے اور ہر ممکن ذریعے سے احادیث کی محافظت اور نگہبانى، تا کہ وہ نابود نہ ہوں؛ علماء نے حفظ حدیث کے لئے چھ روشوں کا ذکر کیا ہے: 1۔ استاد سے سننا  2۔ استاد کو سنانا  3۔ استاد کو سنانے والے سے سننا  4۔ استاد کی اجازت سے نقل کرنا  و۔۔۔ (شیخ بہائی، (بہاء الدین العاملی = محمد بن عزّ الدین حسین)، الاربعین، ص65-66)۔

[3]۔ شیخ صدوق، کمال الدین و تمام العمۃ، ج1، ص302، ح11؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج23، ص49۔

[4] ۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، نہج البلاغہ، حکمت نمبر 139، (سید علی نقی فیض الاسلام، ص1158)۔

[5]۔ شیخ صدوق، معانى الاخبار، ج1، ص138؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الانوار، ج35، ح45۔

[6]۔ سید بن طاؤس الحلی، علی بن موسیٰ، الملاحم و الفتن فی ظہور الغائب المنتظر(علیہ السلام)، ص175، ح203؛ المتقی الہندی، علی بن حسام الدین، کنز العمال، ج14، ص591، ح39675۔

[7]. شیخ صدوق، کمال الدین و تمام العمۃ، ج1، ص304؛ شیخ حر العاملی، اثبات الہداة، ج6، ص395.

[8]۔ الجوہری، أحمد بن عبيد الله بن عيّاش، مقتضب الأثر فی النصّ على الأئمۃ الإثنی عشر، ص31؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص110-111.

[9]۔ کنیز سے مراد خدا کی کنیز ہے جیسا که عبد الله سے مراد بنده خدا ہے اسی طرح اَمَةُ الله سے مراد الله کی کنیز ہے. قرآن میں مردوں کے لئے عبد اور عورتوں کے لئے اَمَہ کا لفظ استعمال ہؤا ہے. سوره نور آیت 32 میں ارشاد ربانی ملاحظہ ہو: "وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِ

[10]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص115۔

[11]. ابن حماد، نُعَیم بن حماد بن معاويہ الخزاعی، الفتن، فتن ابن حماد، ص293، ح1113، مکتبۃ الحیدریہ، نجف، 1424ھ؛ سید بن طاؤس الحلی، الملاحم والفتن، ص320، ح459۔

[12]۔ سید بن طاؤس الحلی، الملاحم و الفتن، ص155، ح2193۔

[13]۔ شیخ صدوق، کمال الدین و تمام العمۃ، ج2، ص648۔

[14]۔ المقدسی الشافعی، یوسف بن یحییٰ بن علی، عقد الدرر فی اخبار المنتظر، ص64؛ نیز دیکھئے: جلال الدین السیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی الشافعی، العرف الوردی فی اخبار المہدی، ص135؛ وہی مصنف، کتاب الحاوى للتفتاوی، ج2، ص73۔

[15]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص132۔

[16]۔ المتقی الہندی، البرہان فی علامات المہدی آخر الزمان (مطبوعہ قم 1399ھ) ، ص101، ح8۔

[17]۔ النعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، ص223؛ صافی گلپایگانی، لطف اللہ بن محمد جواد، منتخب الاثر، ص151، ح30۔

[18]۔ النعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، ص212-214، علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص115۔

[19]۔ شیخ صدوق، کمال الدین و تمام العمۃ، ج1، ص303؛ شیخ حر العاملی، اثبات الہداۃ، ج3، ص571۔

[20]۔ شیخ صدوق، کمال الدین و تمام العمۃ، ج1، ص303، ح14۔

[21]۔ شیخ صدوق، کمال الدین و تمام العمۃ، ج1، ص302، ح9۔

[22]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص109-110، ح1۔

[23]۔ النعمانی، الغیبہ، ص140-141۔

[24]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص112-113، ح8۔

[25]۔ شیخ صدوق، الخصال، ج2و ص740۔

[26]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص122۔

[27]۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، نہج البلاغہ، حکمت نمبر 102،

[28]۔ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج3، ص390؛ ملا محسن فیض کاشانی، محمد بن شاه مرتضی، الوافی، ج‌22، ص809؛ صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص426، ح4۔

[29]۔ الحسنی الحسینی الکاظمی، بشارۃ الاسلام، ص80؛ یزدی الحائری، علی بن زین العابدین، الزام الناصب، فی اثبات الحجۃ الغائب، ص185۔

[30]۔ علامہ مجلسی، علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص192-193۔

[31]۔ متقی الہندی، کنز العمال، ج11، ص192، ح31186۔

[32]۔ متقی الہندی، کنز العمال، ج11، ص192، ح31187۔

[33]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج51، ص117، صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص484۔

[34]۔ سورہ رعد، آیت 13۔

[35]۔ النعمانی، الغیبہ، ص278۔

[36]۔ متقی ہندی، علی بن حسام الدین، کنز العمال، ج14، صص216-217: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: بين يدي الساعة سنين خوادع يخون فيها الامين ، ويؤتمن فيها الخائن ، وتنطق الرويبضة في أمر العامة ، قال: قيل: وما الرويبضة يا رسول الله ! قال: سفلة الناس (حاکم النیسابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج4، ص512؛ الصنعانی، عبد الرزاق بن بن ہمام، المصنف، ج11، ص382)۔

[37]۔ سید بن طاؤس الحلی، الملاحم والفتن، ص129، ح136؛ صافی گلپایگانی، لطف اللہ بن محمد جواد، منتخب الاثر، ص163 و ص443۔

[38]۔ یزدی الحائری، إلزام الناصب،ج2، ص110۔

[39]۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، ص476؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص333، ح63۔

[40]۔ میرجہانی، سید محمد حسن بن میر سید علی، نوائب الدہور فی علائم الظہور، ج2، ص113۔

[41]. متقی الہندی، کنزالعمال، ج14، ص591، ح39646؛ صافی گلپایگانی، منتخب الاثر، ص487۔

[42]۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، نہج البلاغہ، خطبہ نمبر 138، (فیض الاسلام، ص424-425)۔

[43]۔ السلمی السمرقندی، محمد بن مسعود بن عياش، تفسیر العیاشی، ج1، ص66؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص224-225۔

[44]۔ الحسنی الحسینی الکاظمی، سید مصطفی بن سید ابراہیم بن سید حیدر، بشارۃ الاسلام فی علامات المہدی، ص236۔

[45]۔ سورہ نور، آیت 35۔

[46]۔ الکورانی العاملی، علی بن محمد قاسم الکورانی الیاطری العاملی، معجم احادیث المہدى (علیہ السلام)، ج5، ص274، ح1699۔

[47]۔ النیلی النجفی، سید بہاء الدین على بن عبدالکریم، منتخب الانوار المضیئہ، ص30۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: سید صادق سید نژاد

تحقیق و ترجمہ: ف۔ح۔ مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110