امام حسین (علیہ السلام) سے بھائی محمد بن حنفیہ سے بات چیت کے دوران یزید کے ساتھ بیعت کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور دو ٹوک الفاظ میں فرماتے ہیں: "اللہ کی قسم! اگر مجھے دنیا میں کہیں بھی کوئی پرامن پناہ گاہ اور ملجأ ومأویٰ نہ ملے پھر بھی یزید بن معاویہ کے ساتھ بیعت نہیں کروں گا"

19 جولائی 2024 - 17:11
یزید کے ساتھ امام حسین (علیہ السلام) کے بیعت نہ کرنے کا سبب کیا تھا؟

سوال: کیا امام حسین (علیہ السلام) نے روز عاشورا، یزید کے ساتھ بیعت نہ کرنے کے اسباب کے بارے میں کیا فرمایا؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ

جواب: کوفیوں نے امام حسین (علیہ السلام) نے کو ہزاروں خطوط لکھے، وعدے دیئے اور دعوت دی کہ کوفہ تشریف لائیں اور پھر وعدہ خلافی کی تو امام حسین (علیہ السلام) نے ایک خطبے کے ضمن میں  انہیں معاویہ کی مکاریوں کی یاددہانی کرائی اور یزید کے ساتھ بیعت نہ کرنے کے اسباب یوں بیان کئے:

"ألَا إنَّ الدَّعيَّ بْنَ الدَّعيّ قَدْ رَكَزَ بَينَ اثنَتَينِ بَينَ السِّلّةِ وَالذِّلَّةِ وَهَيْهَاتَ مِنَّا الذِّلَّةُ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ لَنَا وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَحُجُورٌ طَابَتْ وَطَهُرَتْ وَأُنُوفٌ حَمِيَّةٌ وَنُفُوسٌ أَبِيَّةٌ مِنْ أَنْ نُؤْثِرَ طَاعَةُ اَللِّئَامِ عَلَى مَصَارِعِ الْكِرَامِ ألَا إنِّي زَاحِفٌ بِهَذِهِ الأُسْرَةِ مَعَ قِلَّة العَدَدِ وَخَذلَانِ النَّاصِرِ؛ [1]

جان لو کہ یہ بے باپ کا بیٹا، ناپاک ابن ناپاک، [عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ!] نے مجھے دو چیزوں کے درمیان مقید کر رکھا ہے: تلوار اور ذلت [یعنی شہادت پانا یا پھر ذلت قبول کرنا] اور بعید رہے ہم سے ذلت؛ خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مؤمنین، اور پاک و پاکیزہ دامن، جنہوں نے ہمیں پروان چڑھایا ہے، اور غیرت و حمیت والے سر، اور استوار ہونے والی جانیں، جو کبھی بھی ظلم و ذلت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں، ہمارے لئے ذلت و خواری پسند نہیں کرتی ہیں کہ ہم پست فطرتوں اور بد سیرتوں کی اطاعت کو کریموں، بزرگوں کے مقتل پر ترجیح دیں [اور ذلت بھری زندگی کو عزت کی موت پر مقدم رکھیں]؛ اور جان لو کہ میں اسی خاندان کے ہمراہ، ساتھیوں کی قلت اور اصحاب کے تنہا چھوڑنے کے باوجود، تم سے لڑنے کے لئے تیار ہوں۔

بعدازاں امام حسین (علیہ السلام) نے یہ اشعار پڑھے:

فَاِنْ نَهْزِمْ فَهَزّامُونَ قِدْماً *** وَ اِنْ نُهْزَمْ فَغَیْرُ مُهَزَّمینا

اگر ہم دشمن کو شکست دیں، تو یہ ہماری پرانی روایت ہے اور اگر بظاہر مغلوب بھی ہوجائیں تو در حقیقت شکست ہمارا مقدر نہیں ہے

وَمَا إِنْ طِبُّنَا جُبْنٌ وَلَكِنْ‌ * * * مَنَايَانَا وَدَوْلَةُ آخَرِينَا

ہمارے وجود میں خوف کی گنجائش نہیں ہے اور ہم موت سے خوفزدہ نہیں ہؤا کرتے، لیکن [فی الوقت] دوسروں کی حکمرانی کا راستہ ہماری شہادتوں سے ہموار ہو گیا ہے"۔

عدم بیعت دوسرے زاویے سے

امام حسین (علیہ السلام) نے والی مدینہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:

"إِنَّا أَهْلُ بَيتِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنُ الرِّسالَةِ، وَمُخْتَلِفُ الْمَلائِكَةِ... وَيَزيدُ رَجُلٌ فاسِقٌ شارِبُ الْخَمْرِ، قاتِلُ النَّفْسِ المُحَرَّمَةِ، مُعْلِنٌ بِالْفِسْقِ وَمِثْلِي لا يُبايِعُ لِمِثْلِهِ؛ [2]

یقینا ہم خاندان نبوت اور معدن رسالت ہیں ہیں اور ہم فرشتوں کی آمد و رفت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔۔۔ اور یزید ایک فاسق و گنہگار اور شرابخوار شخص ہے، جو محترم انسانوں کا قاتل ہے، فسق و گناہ کا اعلانیہ ارتکاب کرنے والا ہے، اور مجھ جیسا اس [یزید] جیسے کے ساتھ بیعت نہیں کیا کرتا"۔

جب شام میں یزید کی موت کی خبر مدینہ پہنچی تو مدینہ کے والی نے امام حسین (علیہ السلام) کو بلایا، اور ان کے درمیان بات ـیت ہوئی۔ عبداللہ بن زبیر نے ـ دارالامارہ میں موجود تھے ـ پوچھا: کیا ارادہ ہے آپ کا؟ تو فرمایا:

"إِنِّی لاَ أُبایِعُ لَهُ أَبَداً، لِاَنَّ الاَمْرَ إِنَّما كانَ لِی مِنْ بَعْدِ أَخِی الْحَسَنِ؛ [3]

یقینا یزید کے ہاتھ پر کبھی بھی بیعت نہیں کروں گا؛ کیونکہ یقینا بھائی حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے بعد، حکومت کا حق [صلحنامے کے عین مطابق] میرا ہے"۔

نیز جب مروان بن حکم نے امام حسین (علیہ السلام) کی یزید کے ساتھ بیعت پر اصرار کیا تو امامؑ نے فیصلہ کن انداز سے فرمایا:

"وَعَلَى الاِسْلامِ، ألسَّلامُ إِذْ قَدْ بُلِیَتِ الاُمَّةُ بِراع مِثْلَ یَزِیدَ، وَ لَقَدْ سَمِعْتُ جَدِّی رَسُولَ اللهِ(صلى الله علیه وآله) یَقُولُ: اَلْخِلافَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلى آلِ أَبِی سُفْیانَ؛ [4]

اور اسلام پر سلام ہے [اور اسلام کی فاتحہ پڑھ لو] اگر امت یزید جیسے حکمران کے ہاتھوں میں گرفتار ہو جائے؛ اور میں نے اپنے نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: کہ خلافت ابو سفیان کے خاندان پر حرام ہے"۔

حقیقت یہ ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) یزید کی حکمرانی کے المیے کی گہرائی کو واضح کر چکے ہیں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے نورانی کلام سے استناد کرکے، مسلمانوں کو بتا رہے ہیں کہ امت کی حکمرانی اور خلافت ابو سفیان کے بیٹوں پر یکسر حرام ہے۔

اور آخری بات، وہ امام حسین (علیہ السلام) سے بھائی محمد بن حنفیہ سے آپ کا ارشاد ہے جس میں آپؑ یزید کے ساتھ بیعت کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور دو ٹوک الفاظ میں فرماتے ہیں:

"يَا أَخِي! وَاللهِ لَوْ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا مَلْجَأٌ وَلَا مَأْوَى، لَمَا بايَعْتُ يَزيدَ بْنَ مُعاوِيَةَ؛ [5]

اے میرے بھائی! اللہ کی قسم! اگر مجھے دنیا میں کہیں بھی کوئی پرامن پناہ گاہ اور ملجأ ومأویٰ نہ ملے پھر بھی یزید بن معاویہ کے ساتھ بیعت نہیں کروں گا"۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1]۔ سید بن طاؤس، اللہوف علیٰ قتلی الطفوف، ص97؛ ابن شعبہ الحرانی، تحف العقول، ص171؛ خوارزمی کی عبارت کچھ مختلف ہے اور اس کا آخری جملہ یوں ہے: مجھے جو کچھ کہنا چاہئے تھا، کہہ چکا اور اتمام حجت کر چکا اور لوگوں کو خبردار کیا اور ڈرایا، اور جان لو کہ میں اسی اہل خانہ کے ہمراہ، جنگ کے لئے تیاروں گوکہ میرے ساتھیوں کی تعداد کم اور اصحاب نے مجھے تنہا چھوڑ دیا ہے"۔ (الخوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسين، ج2، ص8-9) الطبرسی، ابومنصور احمد بن علی بن ابی طالب، الاحتجاج میں امام حسین (علیہ السلام) کے حوالے سے منقول ہے: "... قَدْ تَرَكَني بَيْنَ السِّلَّةِ وَالذِّلَّةِ وَ هَيْهاتَ لَهُ ذلِكَ مِنِّي! هَيْهاتَ مِنَّا الذِّلَّةَ؛ اس نے بتحقیق مجھے تلوار اور ذلت کے درمیان چھوڑ رکھا ہے، اور اس کی خواہش مجھ سے دور ہو، ہم سے دور ہو ذلت"۔ (الاحتجاج، ج2، ص99)۔۔

[2]۔ الکوفی،  أبو محمد أحمد بن أعثم الکندی، الفتوح، ج5، ص15؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص325۔

[3]۔ الخوارزمی، مقتل الحسین، ج1، ص182۔

[4]۔ سید بن طاؤس، اللہوف علیٰ قتلی الطفوف، ص99؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ص184۔

[5]. الکوفی،  أبو محمد أحمد بن أعثم الکندی، الفتوح، ج5، ص31؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص329۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تالیف و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110