اسلامی انقلاب کے رہبر معظم نے ملکی حکام، اسلامی ممالک کے سفراء اور وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا سب سے بڑا سبق "امت سازی" ہے اور امت کے خواص کو امت اسلامی کے قیام اور دنیائے اسلام کے اتحاد و یکجہتی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

21 ستمبر 2024 - 10:47
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ کا سب سے بڑا سبق، امت سازی ہے / دنیائے اسلام کے خواص امت اسلامی کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں، امام خامنہ ای

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے یوم میلاد کے موقع پر، ملکی حکام، اسلامی ممالک کے سفراء اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء نیز عوام کے مختلف طبقات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ کا سب سے بڑا سبق، امت سازی ہے اور امت کے خواص کو امت اسلامی کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

آپ نے فرمایا: امت اسلامی کے قیام کی صورت میں، مسلمین اپنی اندرونی طاقت سے صہیونی ریاست کے خبیث سرطانی پھوڑے کو فلسطین اور دنیائے اسلام کے قلب سے اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں اور امریکہ کے جابرانہ اثر و رسوخ، تسلط اور مداخلتوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت کے موقع پر امت مسلمہ کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے، میلاد النبیؐ کو ختم نبوت کی تمہید ـ یعنی مکمل انسانی سعادت کا حتمی اور آخری نسخہ ـ قرار دیا اور فرمایا: انبیائے الٰہی ابتدائے تاریخ سے آگے بڑھتے ہوئے انسانی کارواں کے سالار ہیں جو راستہ بھی دکھاتے ہیں اور انسان کی فطری، فکری اور عقلی قوتوں کو بیدار کرکے، انسانی معاشروں کے ہر فرد کو تشخیص و تمیز کی قوت و صلاحیت عطا کرتے ہیں۔

رہبر معظم نے فرمایا: انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت، مختلف تاریخی مراحل میں، مختلف رہی ہے۔ بلاشبہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) انسانی تاریخ کے عظیم قافلے کے سالار اور قائد و رہبر ہیں؛ آپؑ زندگی کے لئے انسانی زندگی کے لئے کامل، جامع اور ہمہ جہت درس لے کر آئے ہیں، اور ہمارے لئے دروس نبویہ میں سے بڑا درس امت سازی اور امت اسلامی کہ قیام ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: مکہ مکرمہ میں پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنی 13 سالہ جدوجہد، سختیاں، دشواریاں اور بھوک [اور محاصرے اور پابندیوں] سمیت مختلف صعوبتیں برداشت کرکے اور بعدازاں عصر ہجرت کے دوران، امت اسلامی کے قیام کے لئے بنیادیں فراہم کر دیں. آج دنیا میں اسلامی ممالک کی ایک بڑی تعداد ہے، اور دنیا میں تقریبا دو ارب مسلمان رہتے ہیں؛ لیکن ممالک کے اس مجموعے کو "امت" کا نام نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ امت ایک ایسا مجموعہ ہے جو ہم آہنگ ہے، شوق اور مستعدی کے ساتھ ایک ہدف کی طرف رواں دواں ہے لیکن ہم مسلمان آج متفرق اور منتشر ہیں۔

حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے فرمایا: تفرق اور انتشار کی اس صورت حال کہ نتیجہ دشمنان اسلام کا تسلط ہے اور اسی بنا پر بعض اسلامی ممالک امریکی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ اگر مسلمان متفرق اور منتشر نہ ہوتے تو وہ ایک دوسرے کی پشت پناہی سے، اور ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھا کر، ایک واحد مجموعہ قائم کر سکتے تھے اور یہ مجموعہ تمام بڑی طاقتوں سے زیادہ طاقتور ہوتا اور کسی اسلامی ملک کو امریکہ کا سہارا لینے کی ضرورت نہ ہوتی۔

 

آپ نے امت اسلامی کے قیام میں مؤثر عوامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی حکومتیں اس سلسلے میں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں لیکن اس حوالے سے ان کا ‏عزم قوی نہیں ہے اور یہ عالم اسلام کے کے خواص ـ یعنی سیاستدانوں، علماء، اکیڈمکس، با اثر اور صاحبان فکر و نظر، شعراء، مصنفین اور سیاسی اور سماجی تجزیہ کار اور مبصرین ـ کا فریضہ ہے کہ حکمرانوں کے اندر اس عزم کو پیدا کر دیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر عرصہ 10 سال تک، عالم اسلام کے اخبارات و جرائد اسلامی اتحاد و اتفاق کی ترویج کے لئے مقالات اور کالم دکھیں، شعراء شاعری کریں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور پروفیسر تجزیہ اور تبصرہ لکھیں، دینی علماء دینی احکامات جاری کریں، بلا شبہ، صورت حال مکمل طور پر بدل جائے گی اور اقوام و ملل بیدار ہوں گی تو حکومتیں بھی لازماً ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق چلنے پر مجبور ہونگی۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے فرمایا: فرمایا کہ اتحاد کے قیام اور امت اسلامی کی تشکیل کو ہٹ دھرم اور ضدی دشمنوں کا سامنا ہے، اور امت اسلامی کے باہمی اختلافات ـ بالخصوص دینی اختلاف و انتشار ـ کو متحرک کرنا، امت اسلامی کی تشکیل کا راستہ روکنے کا اہم ترین معاندانہ حربہ ہے۔ یہ جو ہمارے امام بزرگوار [امام خمینی (رضوان اللہ علیہ)] اسلامی انقلاب سے پہلے ہی سے، شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے تھے، اس کا سبب یہ تھا تھا عالمی طاقت کا سرچشمہ اتحاد اور یکجہتی ہے۔

آپ نے ایران کی طرف سے عالم اسلام کو پیغام وحدت، کے بارے میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہمارے اتحاد کے پیغام کو صداقت اور ایمانداری پر مبنی سمجھا جائے تو ہمیں اپنے اندر متحد ہوکر کام کرنا اور حقیقی مقاصد کی طرف بڑھنا ہوگا اور اختلاف رائے یا ذائقوں کا اختلاف، کو قوم کی یکجہتی اور باہمی تعاون پر اثر انداز نہیں ہونا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ، مغربی کنارے، لبنان اور شام میں صہیونیوں کے اعلانیہ اور بے شرمانہ جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: صہیونیوں کے جرائم کا نشانہ بننے والے، جنگی مرد نہیں ہیں بلکہ عام لوگ ہیں، اور جب وہ فلسطین میں جنگی مردوں پر کاری ضرب لگانے سے عاجز آئے تو انہوں نے اپنا جاہلانہ اور خباثت آلود غصہ نوزائیدہ اطفال اور بچوں اور اسپتالوں میں موجود مریضوں پر اتارا۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے فرمایا: اس المناک صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ امت مسلمہ اپنی اندرونی طاقت کو بروئے کار لانے سے عاجز ہے۔

آپ نے ایک بار پھر صہیونی ریاست کے ساتھ اسلامی ممالک کے تمام اقتصادی اور تجارتی تعلقات اور رابطے ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: اسلامی ممالک پر لازم ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے ساتھ اپنے سیاسی رابطوں کی سطح مکمل طور پر کم کر دیں اور ان کے خلاف سیاسی اور ابلاغی حملوں کو تقویت پہنچائیں اور دو ٹوک انداز میں ثابت کرکے دکھائیں کہ وہ ملت فلسطین کے دوش بدوش کھڑے ہیں۔

صدر اسلامی جمہوریہ ایران کا خطاب

اس تقریب کے آغاز میں صدر اسلامی جمہوریہ ایران، ڈاکٹر پزشکیان نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اخوت کے قیام کے سلسلے میں سیرت نبویؐ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: صہیونی ریاست کی جارحیتیوں اور جرائم و مظالم سے نمٹنے کا واحد راستہ مسلمانوں کی باہمی اخوت اور بھائی چارہ اور مسلمانوں کا ید واحدہ بن جانا ہے؛ کیونکہ اگر مسلمین متحد اور ید واحدہ ہوتے تو صہیونی ریاست موجودہ جرائم اور خواتین اور بچوں کے قتل عام کی جرات نہیں کرسکتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110