اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ کے مطابق، مغربی ایشیا کے امور کے مبصر و تجزیہ نگار سید ہادی سید افقہی،
نے خبررساں ادارے "فارس" کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا: امریکہ کے ہاں
دہشت گردی کی تعریف، امریکی مفادات کے موافق، بدلتی ہے۔ اگر دہشت گرد امریکہ کے
خلاف ہو تو اسے "برا دہشت گرد" (Bad terrorist) کہا جاتا ہے اور اگر امریکہ کے مفاد کے لئے کام کرے تو
"اچھا دہشت گرد" (Good terrorists) قرار دیا جاتا ہے۔
انھوں نے بدنام زمانہ دہشت
گرد ابو محمد الجولانی اور شام پر مسلط ہونے والے دہشت گردوں کے سلسلے میں بدلتی
ہوئی امریکی پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا امریکہ خود ہی دہشت گرد ٹولوں کی
بنیاد رکھتا ہے اور انہیں پراکسیوں کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس امریکی پالیسی کی
نمایاں مثال داعش اور جبہۃ النصرہ وغیرہ ہیں جو امریکہ کی باریک بینانہ حکمت عملیوں
اور منصوبوں کے تحت، تنازعات کی حدود اور انداز کو مد نظر رکھ کر اور سماجی حالات
سے فائدہ اٹھا کر معرض وجود میں آئیں۔
انھوں نے کہا: یہ ٹولے
ابتداء میں عدم استحکام پیدا کرنے اور ملکوں میں امریکی اثر و رسوخ کو آسان بنانے
کے لئے بنائے جاتے ہیں، لیکن اگر محسوس کریں کہ انہیں مزید امریکیوں کی ضرورت نہیں
ہے تو بغاوت پر اتر آتے ہیں؛ چنانچہ امریکہ فوری طور پر ان کے سرغنوں کو منظر عام
سے ہٹا دیتا ہے اور نئی تشکیل و تنظیم کو متبادل کے طور پر میدان میں لاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ داعش اس
امریکی پالیسی کی واضح مثال ہے کہ جب اس [داعش] نے عراق میں تباہ کاری اور قتل عام
کا ارتکاب کیا تور امریکہ نے اپنا تعارف "فرشتۂ نجات" کے طور پر کرایا
اور انسداد دہشت گردی کے عنوان سے اتحاد کی شکل میں عراق میں واپس آیا۔ حالانکہ
مقاومت اسلامی کے مجاہدین نے امریکیوں کو 2011ع میں خوار و ذلیل کرکے عراق سے مار
بھگایا تھا۔ سنہ 2014ع میں اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے سنہ 2014ع
میں صریحا اعتراف کیا کہ داعش کو 63 ممالک کے مشورے سے تشکیل دیا گیا تاکہ مغرب کے
مفاد میں متعینہ ذمہ داریاں نبھائے۔
سید افقہی نے کہا: آج ہماری
بحث کا موضوع القاعدہ سے منسلک "جبہۃ النصرہ" ہے جو کہ بعد میں داعش کی
ایک شاخ کے طور پر سرگرم ہوئی اور داعش کے سرغنے ابو بکر البغدادی نے نے اعتراف کیا
کہ "ہم نے الجولانی کو مشن سونپا کہ شام میں ہمارے ذیلی گروپوں کا انتظام
سنبھالے لیکن بعدازاں وہ ہمارے خلاف اٹھ کھڑا ہؤا"۔
قاتل، خونخوار اور جرائم پیش
الجولانی کو اب ایک ڈپلومیٹک کردار کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے
انھوں نے مزید کہا: میں
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے ارشادات کو حوالہ دینا چاہوں
گا جنہوں نے شام کے موجودہ حالات کے بارے میں فرمایا: "یہ ایک سازش ہے جسے
امریکی اور صہیونی "وار روم" (War Room) نے ایک پڑوسی ملک (ترکیہ) کے تعاون سے تیار کیا"، تو آپ دیکھ
لیجئے کہ یہ ہمارے لئے باعث حیرت نہیں ہے کہ ایک طرف سے وہ [امریکی اور مغربی]
اعلان کرتے ہیں کہ کہ یہ دہشت گرد ہیں اور جب وہ اقتدار حاصل کر لیتے ہیں تو اور
حالات پر حاوی ہوجاتے ہیں، تو امریکی اپنی رائے اور پالیسیوں کو بدل دیتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا: ایک
مثال ہیئت تحریر الشام کا راہنما ابو محمد الجولانی ہے، ایسا شخص جو قتل و غارت
اور وسیع پیمانے پر غیر انسانی جرائم کے حوالے سے بدنام تھا، لیکن اب اس کو ایک
ڈپلومیٹک کردار کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے۔ امریکہ نے بےشرمی کی حدود پھلانگتے
ہوئے اعلان کیا ہے کہ "ہم مزید کا تعاقب نہیں کرتے، اس کو مطلوبہ مجرم نہیں
سمجھتے اور یہ کہ اس کی گرفتاری کے لئے اعلان کردہ ایک کروڑ ڈالر کا انعام کالعدم
قرار دیا گیا ہے!" یہ متضاد رویہ ثابت کرتا ہے کہ اگر دہشت گرد امریکہ کے
خلاف ہو تو اسے "برا دہشت گرد" (Bad terrorist) کہا جاتا ہے اور اگر امریکہ کے مفاد کے لئے کام کرے ـ یعنی اگر
امریکہ شام کو آگ لگا دے یا اسرائیل شام کی فضائیہ، بری فوج اور تمام فوجی ڈھانچوں
کو نیست و نابود کر دے، تو کہہ دے کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ہم تو بس
برسراقتدار رہنا چاہتے ہیں ـ تو یہ
"اچھا دہشت گردوں" (Good terrorists) کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔
سید افقہی نے وضاحت کرتے
ہوئے کہا: آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ غیر ملکی ـ خاص کر یورپی ـ وفود کا سیلاب دمشق کی
طرف آ رہا ہے، یا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ـ جو اچھی طرح جانتے ہیں یہ دہشت
گرد ہیں، اور جانتے ہیں کہ ان کے ڈیٹھ اسکواڈ سابق حکومت کے فوجی افسروں، شام کے
سائنسدانوں، سیاسی مفکرین اور جامعات کے پروفیسرز کو یکے بعد دیگرے دہشت گردی کا
نشانہ بنا کر قتل کر رہے ہیں تو ـ اپنی آنکھیں بند کرتے ہيں وہی رویہ جو وہ غزہ کے
سلسلے میں اپنائے ہوئے ہیں [مجرمانہ خاموشی]۔
شام میں ایران کی موجودگی
علاقائی امن کے تحفظ کے لئے تھی
سید ہادی سید افقہی نے
کہا: جب تک ایران شام میں موجود تھا، شام محفظ رہا اور خطے کو بھی شام کی طرف سے
کوئی خطرہ پیش نہیں آیا، یعنی یہ کہ شام میں ایران کی موجودگی علاقائی امن کے
تحفظ، محور مقاومت کی حمایت اور مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے تھی۔
انھوں نے آخر میں کہا:
بہرحال، شام آخر کار سیاسی، سماجی اور معاشی بحرانوں کی وجہ سے ایک تاریک سرنگ میں
چلا گیا ہے۔ شامی عوام کے تحمل اور استقامت کی سطح نیز علاقائی اور بین الاقوامی فیصلے
ہی اس ملک کے مستقبل کا تعین کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110